حبیب الرحمن
آج کل عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری نے سرکاری زمینوں، فلاحی پلاٹوں پر قبضے اور چائنا کٹنگ کو جس طرح اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے وہ بلاشبہ لائق تحسین ہے۔ معزز جسٹس گلزار دراصل سندھ ہائی کورٹ کراچی میں بحیثیت جج کافی عرصے رہے ہیں اور یہیں سے عدالت عظمیٰ پہنچے ہیں، اس لیے انہیں کراچی کے چپے چپے کا بخوبی علم ہے کہ کس طرح سرکاری زمینوں، فلاحی پلاٹوں پر قبضے اور بیدردی سے چائنا کٹنگ کی گئی جس میں کے ڈی اے اور کے ایم سی کے متعلقہ افسران کی معاونت شامل رہی اور خوب مالی فائدہ اٹھایا گیا۔ اب ان کا محاسبہ شروع ہوا ہے تو سرگرمیاں دکھارہے ہیں جس وقت یہ سب کچھ ہورہا تھا تو اس وقت یہ کہاں تھے؟ عدالت عظمیٰ نے مذکورہ ساری زمین واگزار کرانے کا جو ٹائم فریم دیا ہے اُمید ہے کہ اس مدت میں نہ صرف یہ کہ اربوں روپے کی زمین و پلاٹ خالی کرائے جائیں گے بلکہ اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرکے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ جسٹس گلزار نے یہ قدم اٹھا کر شہر قائد پر احسان عظیم کیا ہے، ہم اُن سے التماس کرتے ہیں کہ وہ کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقوں کی طرف بھی توجہ فرمائیں کیوں کہ یہاں کی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ گلستان جوہر وسیع و عریض علاقے پر محیط ہے اور یہ فیصل کنٹونمنٹ بورڈ کے دائرہ اختیار میں ہے، مگر یہاں نہ کھیل کے میدانوں کو بخشا گیا اور نہ گنجان فلیٹوں کی دنیا میں رہائش پزیر لوگوں کے لیے قبرستان کی زمین چھوڑی۔ سارا علاقہ لینڈ مافیا کے حوالے کردیا گیا، ایک مخیر شخص کی طرف سے عطیہ کی ہوئی زمین پر چھوٹا سا قبرستان کافی دنوں پہلے بھر چکا ہے جس کا سی ای او فیصل تحریری طور پر اعتراف کرچکے ہیں کہ قبرستان کے لیے درکار سی کیٹیگری کی زمین علاقے میں موجود نہیں۔ ہم نے اس تکلیف دہ صورت حال سے جب ڈائریکٹر جنرل ملٹری لینڈ کنٹونمنٹ راولپنڈی کو آگاہ کیا تو انہوں نے ازراہ عنایت A کیٹیگری کو C میں منتقل کرنے کی منظوری دے کر یہ آپشن بھی دیا کہ وہ ذاتی طور پر کمشنر کراچی سے قبرستان کے لیے درکار زمین کے حصول کے لیے رابطہ کریں مگر یہ معاملہ تاحال جوں کا توں ہے اور علاقے کے لوگوں کو تدفین کے سلسلے میں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ لہٰذا اس جانب بھی توجہ فرما کر پریشانی سے نجات دلائیں۔