محمد اکرم ہزاروی
آج صنعت وحرفت ہو یا زراعت، خوراک وملبوسات ہو یا تعمیرات وعلاج گھریلو استعمال میں ہو یا عبادات الغرض زیست کا کوئی بھی کام پانی کے بغیر مشکل ہی نہیں تقریباً نا ممکن ہے۔ یہ تو بڑی مشہور سی بات ہے کہ: ’’پانی زندگی ہے‘‘ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ہم یوں کہیں استعمال کم ضائع زیادہ کیا جارہا ہے تو بے جانہ ہو گا۔ ولڈ بینک کا خیال ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی پر لڑی جائے گی۔ انڈیا اور پاکستان کے مابین دریاؤں پر کئی تنارع چل رہے ہیں۔ جن میں سے ’’کشن کنگا ڈیم پروجیکٹ‘‘ کو پاکستان عالمی عدالت انصاف میں لے جا چکا ہے۔ دنیا کے میٹھے پانی کے ذخائر میں تیزی کے ساتھ کمی واقع ہو رہی ہے۔ سمندر کا پانی میٹھا کر کے استعمال کے قابل بنایا جا رہا ہے۔ حالاں کہ یہ قدرتی میٹھے پانی کے ذخائر کا نعم البدل کبھی نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ یہ پانی ہزاروں بیماریاں ساتھ لاتا ہے۔ اس میں تو دورائے نہیں کہ سمندری پانی صنعتی فضلے سے آلودہ ہے۔ کیا ہم فطرت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں کہ میٹھے پانی کو بے دریغ ضائع کر رہے ہیں اور سمندری پانی کو میٹھا کرنے کی کوشش میں ہیں۔
یوں تو پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں دنیا کا ایک بہترین نہری نظام موجود ہے۔ لیکن گزشتہ چند سال سے پاکستان کے دریاؤں کی سطح میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے باوجود انڈیا نے پاکستان کے دریاؤں پر کئی ڈیمز بنا رکھے ہیں۔ انڈیا جب چاہتا ہے ہماری کھڑی فصلوں کو تباہ و برباد اور سیلاب جیسی صورت حال سے دو چار کردیتا ہے۔ تین جنگوں میں سے دو میں واضح شکست کھانے کے بعد انڈیا کو یہ ادراک ہو گیا ہے کہ پاکستان کو روایتی جنگ میں شکست دینا ناممکن ہے۔ اس لیے وہ خاموش طریقے سے پاکستان کو قحط سے دو چار اور بنجر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اپنوں کی بے حسی اور سفارتی ناکامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان کو پانی کی شدید قلت سے دو چار ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔
گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک نے ایک خوفناک رپورٹ جاری کی۔ اگر صورت حال یہی جاری رہی تو پاکستان کو پانی کی شدید قلت سے دوچار ملک باور کرایا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ’’ملک میں اس وقت صرف تیس روز کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ چالیس برسوں میں ایک بھی نیا ڈیم نہیں بن سکا۔ ولڈ بینک خبردار کر چکا ہے کہ 2020 تک پاکستان میں پانی کی قلت شدت اختیار کر جائے گی۔ 2030 تک پاکستان کا شمار دنیا میں آبی قلت سے دوچار 33ممالک میں ہونے لگے گا۔ اسٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ کشن کنگا ڈیم کی تعمیر سے دریا ئے نیلم میں 10سے 33فی صد پانی کی فراہمی میں کمی ہوگی۔ افغانستان میں دریائے کابل پر پروجیکٹس سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں میں 17فی صد پانی کی کمی ہو جائے گی۔
اس رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد ہمیں یہ امید واثق تھی کہ اس سنگین مسئلے کو دیکھتے ہوئے اب تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دیں گی۔ مگر ہمیں مایوسی اس وقت ہوئی جب ہر طرف راوی ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ اس سنگین مسئلے کی حسّاسیت کا ادراک حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کو ہے اور نہ ہی اپوزیشن پارٹیاں اس مسئلے کے حل کی خواہاں ہیں۔
اپوزیشن کو تو اس رپورٹ کولے کر حکومت وقت کو صحیح آئینہ دیکھانا چاہیے تھا مگر اس طرف تو راوی ’’چین ہی چین‘‘ لکھ رہا ہے۔ سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ نان ایشو میں الجھی ہوئی اپوزیشن کی نظریں تو اس وقت اس با ت پر ہیں کہ 2018ء کے الیکشن میں کہاں کہاں سے سیٹیں حاصل کرنی ہیں۔ کدھر جوڑ توڑ کی سیاست کرنی ہے۔ اور کس کی وکٹ گرانی ہے۔ رہ گئی بات عوام کی تو اس وقت 22کروڑ عوام کی زندگی بچانے کا کسی کو نہ خیال ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کر رہی ہے۔ خیال ہے تو صرف جمہوریت کی عزت بچانے کا ہے۔ بقول شاعر
آپ خود ہی اپنی اداؤں پر غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو
بد قسمتی سے ہمارے ارباب حل و عقد ’’تربیلا ڈیم‘‘ کے بعد آج تک کوئی ڈیم نہ بنا سکے ’’کالا باغ ڈیم‘‘ تو ویسے ہی ہماری سیاست کی نظر ہو گیا ہے جس کی فائل ہم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الماری میں مقفل کر دی ہے۔
ملک کے محبِ وطن حلقوں اور تھنک ٹینکس کو کالا باغ ڈیم پر ایک ڈائیلاگ کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ اس کے بننے کی راہ ہموار ہو سکے۔ کالا باغ ڈیم پر انڈیا کی ساز ش کا ہم شکار ہوگئے۔ جس میں ہمارے ہی لوگ استعمال ہوئے ہیں۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
شاید آپ جانتے ہوں گے کہ ہمارے لیے پانی 400کلو میٹر دور سے لایا جاتا ہے۔ یہ ایک شرعی مسئلہ بھی ہے کہ آپ اگر دریا کنارے بھی وضو کر رہے ہوں تو پانی کو بقدرِ ضرورت ہی استعمال کرنا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پانی بے تحاشا ضائع نہیں کرنا بلکہ ضرورت کے مطابق ہی استعمال کرنا ہے۔