برسوں سے لاپتا مزید 17افراد کو حراستی مراکز میں غیرقانونی قید رکھنے کا اعتراف

717

کراچی (رپورٹ خالدمخدومی)قانون نافذ کرنے والے اداروں نے برسوں سے لاپتا مزید 17افراد کے فاٹا میں قائم حراستی مراکز میں ہونے کا اعتراف کرلیا جبکہ 2کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ لاپتا افراد کی تنظیم کی رہنما آمنہ مسعود جنجوعہ نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ان حراستی مراکزمیں قید 100سے زائد لاپتا افراد کو قتل کر کے لاشیں مختلف مقامات پر پھینک دی گئیں ہیں ، مذکورہ حراستی مراکز میں قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے پہلے بھی سامنے آچکی ہیں، دی ایکشن (ان ایڈ آف سول پاور ) ریگولیشن 2011ء کے تحت قائم ان مراکزمیں قید ملزمان کو گرفتاری کے بعد زیادہ سے زیادہ 120 دن کے اندرصوبائی کمیٹی کے سامنے پیش کرنالازمی ہے ، یہ انکشاف جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کیے گئے لاپتا افراد کے لیے تلاش کمیشن کی دستاویزات کے ذریعے ہوا، شہری حلقوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قوانین پر عملدرآمدکا مطالبہ کیا ہے، وفاقی حکومت نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو پانے کے لیے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے لیے دی ایکشن (ان ایڈ آف سول پاور ) ریگولیشن 2011ء میں ایک خصوصی قانون پاس کیا تھا جس کے تحت دہشت گر دوں کے خلاف کام کرنے والے اداروں کو فا ٹا میں کارروائی کے تمام تر اختیارات دیے گئے ‘ساتھ ہی ان ادارروں کو اپنے حراستی مراکز بھی قائم کرنے کی اجازت دی گئی ، جس کے بعدکوہاٹ ،لکی مروت ،سوات اور فورٹ صلوب میں یہ مراکز قائم کیے گئے،جہاں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث یا مبینہ طور پر دہشت گردوں کی سہولت کاری میں ملوث افرادکو قید میں رکھا جاتا ہے ،جن کی نگرانی قانون کے مطابق گورنر یا اس کا کوئی نامزد افسر کرتاہے،ریگولیشن کی دفعہ 14کے تحت ایک 4 رکنی اورسائٹ بورڈبھی قائم کیاگیا ہے جو گرفتار افراد کے حقوق کی تحفظ کاذمے دار ہے۔30نومبر2017ء کو لاپتا افراد کی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن کی طرف سے جاری شدہ دستاویزات سے انکشاف ہو ا کہ دی ایکشن (ان ایڈ آف سول پاور ) ریگولیشن 2011ء کے تحت قائم حراستی مراکز میں عام قوانین کے ساتھ ساتھ ریگولیشن کے قانون کے مطابق بھی کام نہیں کیا جا رہا، لاپتا افرادکے کمیشن کی دستاویزکے مطابق2016ء سے لاپتا تحصیل کوہاٹ کے محلے قاضی کلے کے رہائشی محمد گلاب کے بارے میں نومبر2017ء میں بتایا کہ وہ قلعہ صلوب میں قائم حراستی مرکز میں موجو د ہیں ، 2014میں ہنگو سے لاپتا محمد زبیر،فروری 2015 میں ڈیرہ اسمٰعیل خان سے لاپتا عمران اور خلیل احمد ، 2016ء میں راولپنڈی سے لاپتامحمد شہیر ، 2016ء میں مردان سے لاپتا فدامحمد ، 2013ء میں پشاور سے لاپتا ہونے والارفعت اللہ ،2013ء میں چارسدہ ، 2011ء میں کرم ایجنسی اورمئی 2017ء میں ہری پور سے لاپتا ہونے والے کامران ،میر باچا خان اور ہدایت اللہ کے بارے ملٹری انٹیلی جنس کے افسران نے لاپتا افراد کے کمیشن کے سامنے انکشاف کیاکہ وہ فوج کی نگرانی میں چلنے والے حراستی مرکز لکی مروت میں موجو د ہیں،جن سے ان کے رشتہ داروں کی جلد ملاقات کرائی جائے گی۔ اس طرح برسوں سے لاپتا متعدد افراد فاٹا میں قائم مختلف حراستی مراکز میں قید ہیں ،جن کی تفصیلات لاپتا افراد کے کمیشن کی جانب سے 30نومبر 2017ء کوجاری ہونے والی دستاویزت میں موجو دہیں ، ان ہی دستاویزات میں اس بات کابھی انکشاف ہو ا کہ دسمبر 2016ء میں پاکپتن سے لاپتا ہونے والا نوید پولیس مقابلے میں ماراگیا جبکہ اگست 2016ء کوچارسدہ سے لاپتا ہونے والے امین الحق کی لاش جمرود کے اسپتال سے برآمد ہو ئی۔ شہری حلقوں نے وفاقی حکومت اور صوبائی گورنر کی زیرنگرانی چلنے والے ان مراکز میں قانونی تقاضوں کو پورا نہ کیے جانے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔لاپتا افراد کے بارے میں سرگرم سماجی رہنمااورڈیفنس چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے بھی کچھ روز قبل اسلام آبادمیں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس صورتحال پر سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ جینو امیں ہونے والی ایک کانفرنس میں لاپتا افراد کے حوالے سے پاکستان پر تنقید کی گئی مگر پاکستانی سفارتکار دفاع کے لیے موجود ہی نہیں تھا۔ عالمی دنیا سمجھتی ہے کہ پاکستان لاپتا افراد کو اٹھانے والوں کو تحفظ دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کمیشن کے بجائے خود تسلسل سے سماعت کرے تو یہ مسئلہ بہت جلد حل ہوسکتا ہے،لاپتا افراد کا مسئلہ اتنا اہم اور خوفناک ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو بھی اپنے لاپتا کردیے جانے کا خوف پیدا ہوگیا ہے، اب حراستی مراکز میں قید ایک سو سے زائد لاپتا افراد کو قتل کر کے ان کی نعشوں کو پھینک دیا گیا ہے۔ لاپتا افراد کے ورثا کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ عالمی اداروں سے رجوع کریں۔