امریکی جمہوریت:دھوکا اورفراڈ

118

سمیع اللہ ملک

امریکا کے علمی جریدے ’پرس پیکٹو آن پولیٹکس کے شمارے میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کے موجودہ نظام کو جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کہنے کو یہ جمہوریت ہے، لوگ ووٹ دے کر اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرتے ہیں مگر یہ حکومت ان کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرتی۔ یہ چند بڑوں کی حکومت ہے، جو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور ان کے بیشتر فیصلے بدعنوانی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت کے بیشتر معاملات میں عوام کی مرضی کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا کردار ووٹ ڈالنے اور چند ایک معاملات میں اپنی رائے دینے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ منتخب ادارے جو چاہتے ہیں، سو کر گزرتے ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کے بارے میں اب تک اکثریتی جمہوریت کے حوالے سے جو تصورات پائے جاتے ہیں، وہ کچھ زیادہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ امریکا میں عام ووٹر کی بات نہیں سنی جاتی۔ وہ مختلف سطحوں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد مطمئن ہو رہتا ہے کہ اس نے جمہوری کردار ادا کردیا مگر سچ یہ ہے کہ اس نام نہاد جمہوری ڈھانچے میں اس کا کوئی خاص کردار نہیں۔ امریکی جمہوریت کے حوالے سے اس نوعیت کی تحقیقی رپورٹس کم ہی دکھائی دی ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں کے مفادات نے انہیں ایک پلیٹ فارم پر پہنچا دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ ملک کے مجموعی مفاد اور بالخصوص بہبودِ عامہ کے مقصد کو ایک طرف ہٹاکر صرف اپنے مفادات کو اوّلیت دیتے رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں عام امریکی کے لیے ادا کرنے کو کوئی خاص کردار نہیں رہ گیا۔ وہ صرف ووٹ دینے کی حد تک جمہوری رہ گیا ہے۔ ملک کے کسی بھی اہم فیصلے میں، پالیسی کی تیاری اور ان پر عمل کے معاملے میں عام امریکی کا کوئی کردار نہیں۔ مختلف امور کو جواز بناکر حکمراں طبقہ وہی کچھ کرتا ہے، جو اسے کرنا ہوتا ہے۔

2-2
مختصرا ًیہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا میں در حقیقت جمہوریت نہیں بلکہ چند بڑوں کی حکومت ہے، جو ہر معاملے میں اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے فیصلوں کا عوام کے مجموعی مفاد سے کم ہی تعلق ہوتا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں جو کچھ بھی جمہوریت کے نام پر دکھائی دے رہا ہے، وہ محض چندگروپوں کا مفاد ہے، جو اپنی بقا اور استحکام کے لیے ایک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مختلف معاملات میں تحقیق کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ امریکا میں انتہائی طاقتور طبقہ بیشتر معاملات پر جو گرفت رکھتا ہے، وہ بھی پوری ایمانداری سے سامنے نہیں لائی جارہی۔ اس حوالے سے اعداد و شمار بھی درست نہیں۔ کاروباری طبقہ بیشتر امور پر حاوی ہوچکا ہے۔ سیاسی معاملات پر ان کی گرفت خاصی مستحکم ہے، گوکہ اِس حوالے سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار گمراہ کن ہوتے ہیں۔
9 اپریل 2014ء کوٹیسٹنگ تھیوریز آف امریکن پولیٹکس کے زیر عنوان پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسرمارٹن گلیز اورنارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر بینجمن آئی پیج نے 42 صفحات پرمشتمل اپنے ایک تحقیقی مقالے میںموجودہ امریکی جمہوریت کاپول کھول کررکھ دیاہے۔ان دونوں ماہرین نے لکھا ہے کہ امریکا میں اب بیشتر معاملات انتہائی مالدار لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ ہر معاملے میں وہی طریق کار اختیار کرتے ہیں، جو ان کے تمام مفادات کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ان ماہرین نے اپنے مضمون میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے انتہائی طاقتور افراد اور اداروں کے بارے میں جو کچھ بھی بیان کیا ہے، وہ اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں اگرچہ بہت متاثر کن دکھائی دیتا ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ طبقہ کس حد تک طاقتور ہے مگر پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی امور سمیت تمام معاملات میں ان کے حقیقی اختیار اور اثر کا درست ترین اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔
امریکی جمہوریت واقعی جمہوریت ہے بھی یا نہیں، اِس موضوع پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی جامع تحقیق ہے۔ بہت سے ماہرین کی طرح بینجمن پیج اور مارٹن گلیز نے لکھا ہے کہ اب تک یہی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ امریکا میں جمہوریت ہے اور یہ کہ جمہوری سیٹ اپ چند بڑوں کی بدعنوانی پر مبنی اجارہ داری کے خلاف کار فرما رہا ہے مگر پالیسی ایشوز کا عمیق جائزہ لینے کے بعد یہ اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں کہ امریکا میں جمہوری سیٹ اپ اب تک تو چند بڑوں ہی کے مفادات کا نگران و محافظ رہا ہے۔ جو لوگ جمہوری سیٹ اپ کو چلانے کے دعویدار ہیں، وہ بہت سے معاملات میں ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا بہبودِ عامہ سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہوتا۔ مختلف معاملات میں اعداد و شمار کا عمیق جائزہ لینے کے بعد مارٹن گلیز اور بینجمن پیج اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکا میں دکھائی دینے والی جمہوریت در حقیقت جمہوریت نہیں بلکہ چند بڑوں کی حکومت یا اجارہ داری ہے جو ہر معاملے میں اپنی مرضی کو دیگر تمام امور پر مقدم رکھتے ہیں۔ یہ چند بدعنوان ملک کے بیشتر امور پر قابض و متصرف ہیں۔ میڈیا کو انہوں نے اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے۔ منتخب اداروں میں بھی انہی کی اجارہ داری ہے۔ عام طور پر روس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں چند بڑوں کی حکومت ہے، جو ہر معاملے میں بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ملک کو چلاتے ہیں۔ امریکا کا اگر بغور جائزہ لیا جائے، تو روس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ چند بڑوں نے ہر چیز پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔ شخصی آزادی کا تصور محض فریبِ نظر ہے۔ ملک کے تمام اہم امور میں حتمی فیصلہ انہی کا ہوتا ہے، جو تمام معاملات پر قابض و متصرف ہیں۔
اس چشم کشارپورٹ کے بعدجمہوریت کے ان دعویداروں کی آنکھیں کھل جانی چاہییں جودن رات اس طاغوتی نظام کی حمایت میں قلابے ملاکرقوم وملت کوایک سنہری جال میں
پھانسنے کے جرم میں شریک ہیں۔