محمد انور
کسی بھی جمہوری حکومت کے لیے صرف یہی بات ’’چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے‘‘ کا باعث ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے بھی عدلیہ مختلف مسائل کے سدباب کے لیے احکامات جاری کررہی ہے۔ کراچی سمیت صوبے بھر میں پانی کے مسائل ہوں یا کے الیکٹرک کی ’’لوٹ مار‘‘ یا کرپشن کا سیلاب یا گھوسٹ ملازمین اور ترقیاتی کاموں میں تاخیر، سب ہی معاملات اور مسائل کا عدالت کی جانب سے نوٹس لیا جارہا ہے تو تب حکمرانوں کے ’’کان پے جوں رینگتی ہے‘‘۔
لوگوں کا کہنا ہے جب تمام مسائل کے حل کے لیے عدالتوں ہی کو کارروائی کرنا پڑ رہی ہے تو پھر ان حکومتوں کا کیا کام؟ جو کام حکومتوں کو کرنا چاہیے وہ عدالتیں کررہی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کروڑوں کی مراعات اور لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ اور دیگر وزراء و مشیران کی کیا ضرورت؟ اس رقم کو بچاکر عدالتوں کو مزید بااختیار کردیا جائے۔
ویسے بھی حکومتیں کرپشن کے سدباب کے نام پر ’’کرپشن کے سوا کیا کرتیں ہیں؟‘‘۔ یہ بات عام ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کا اصل مقصد بھاری کمیشن کا حصول ہے۔ یہی وجہ ہے ملک بھر منصوبے کے پیچھے لوٹ مار اور بدعنوانی کی کہانیاں نکلتیں ہیں۔
پنجاب میں میٹرو ٹرین اور کراچی میں گرین بس کے جاری منصوبے کرپشن سے پاک نہیں ہیں۔ کراچی میں بلاول زرداری کے نام سے منسوب منصوبوں میں مثالی کرپشن سامنے آرہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت دس ارب کے پہلے اور آٹھ ارب کے دوسرے مرحلے میں ایک ہی کنسلٹنٹ فرم کی خدمات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ منظور نظر ادارے کو نواز دیا گیا ہے اور دیگر کنسلٹنٹ فرمز کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انجینئرنگ ایسوسی ایٹ نامی فرم غیر معمولی تجربہ رکھتی ہو لیکن کیا بہت تجربہ کار ادارے کو قوانین کی خلاف ورزی کرکے کنٹریکٹ دیا جاسکتا ہے؟ اور ایسے ادارے کی ناقص کنسلٹنسی پر خاموش رہنا چاہیے؟
کراچی کنسٹرکشن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری عبدالرحمن نے صوبائی حکام اور نیب کو لکھے گئے خطوط میں اربوں روپے کے کراچی پیکیج میں کی جانے والی بے قاعدگیوں اور سیپرا رولز کی خلاف ورزی کی بھی نشاندہی کی ہے لیکن افسوس تاحال نہ تو چیف سیکرٹری سندھ اور نہ کسی اور نے ان شکایات کا نوٹس لیا۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہی فرم کو بغیر ٹینڈر یا پرانے ٹینڈرز کے عوض نئے کاموں کی کنسلٹنسی کا ٹھیکا دیا گیا اور دیا جارہا ہے۔ جو سنگین بے قاعدگی ہے نتیجتاً میں کاموں میں نقائص بھی سامنے آرہے ہیں۔ پیکیج کے تحت بنائی جانے والی یونیورسٹی روڈ اور طارق روڈ میں خرابیاں نکل چکی ہیں۔ ممکن ہے کہ ان خرابیوں پر حکام ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس کا انتظار کررہے ہوں۔
یہ بات درست ہے کہ سندھ حکومت ان دنوں صحت کی سہولتوں پر توجہ دے رہی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی) اور اس کے ایمرجنسی سینٹرز میں مفت علاج اور ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرنا ایک بڑا قدم ہے۔ ان دنوں این آئی سی وی ڈی میں بائی اپریشن تک بغیر کسی فیس کے کیے جارہے ہیں جب کہ ای سی جی،انجیو گرافی اور انجو پلاسٹی بھی مفت کی جارہی ہے۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ کارڈیوویسکولر ڈیزیز کی طرح سندھ گورنمنٹ کے زیر کنٹرول دیگر ہسپتالوں پر بھی توجہ دی جائے۔ عدم توجہ کے باعث سندھ گورنمنٹ ہسپتال کورنگی نمبر پانچ میں رات کی ایمرجنسی میں ایک غیر متعلقہ جعلی ڈاکٹر کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے اپنی اجارہ داری قائم کرلیتا ہے اور رات کو حادثات کے زخمیوں سے بھاری فیس بھی بلا خوف ایک عرصے سے وصول کررہا ہے چوں کہ مذکورہ شخص ڈاکٹر ہی نہیں ہے اس کے باوجود وہ مسلسل کئی سال سے ڈاکٹر کی حیثیت سے رات کو موجود ہوتا ہے اس لیے کوئی بڑا حادثہ رونما ہونے کا بھی خدشہ ہے لہٰذا حکام کو اس جانب توجہ دینی چاہیے ورنہ توقع ہے عدالت تو سوموٹو ایکشن لے ہی لے گی۔