یہ گلہ نہیں

304

میاں منیر احمد
دنیا بھر میں معروف و تسلیم کی جانے والی ہر ضرب المثل آج بھی حقیقت ہے‘ کسی بھی ضرب المثل کو لے لیں‘ ایک پختہ سوچ اور مشاہدے کے بعد اسے سند ملی معلوم ہوتی ہے ایک ضرب المثل ہے کہ بھریا میلہ چھوڑنا چاہیے‘ کیا پختہ سوچ اس میں کارفرما ہے جس نے بھی یہ بات کی تھی، وہ کوئی بہت بڑا اللہ لوگ بندہ تھا یہاں تو لوگ اُجڑا میلہ نہیں چھوڑتے کہ کہیں دوبارہ آباد نہ ہو جائے اور پھر جگہ ہی نہ ملے حکومت‘ طاقت اور اقتدار بھی ایک ایسا ہی بھریا میلہ ہے جس کسی کو بھی یہ اختیار ملا کم ہی خود اپنی مرضی سے چھوڑنے کو تیار ہوا‘ مشرف کہتے رہے کہ وردی میری کھال ہے‘ نواز شریف کہتے رہے کہ استعفا نہیں دوں گا‘ ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ میر ظفر اللہ جمالی استعفا دینے کے دوگھنٹے پہلے تک کہتے رہے کہ استعفا دیا نہ کسی نے مانگا‘ یہ اقتدار چیز ہی ایسی کہ جسے آخر تک چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا، مگر اقتدار کا فیصلہ چوں کہ انسان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا، اس لیے اسے جلد یا بدیر چھن جانا ہوتا ہے، سیانے وہی رہے، جنہوں نے وقت آنے سے پہلے یہ بھریا میلہ چھوڑ دیا‘ انور سادات‘ کرنل قذافی‘ صدام حسین‘ زین العابدین غرض بہت سے رہنماء اور آج زمبابوے کے صدر کو جس کسمپرسی کے عالم میں اقتدار چھوڑنا پڑا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے ایک طویل اقتدار کے بعد بھی خواہش یہی رہی کسی طرح چند دن یا چند ماہ اور کرسی اقتدار پر بیٹھنے کا موقع مل جائے گا‘ یہ خواہش ایک روز انسان کو قبر تک لے جاتی ہے‘ قرآن کی سورہ التکاثر اس کی بہترین مثال ہے‘ اقتدار کی بھوک مٹتی نہیں‘ اسے گلے کا ہار بنانے والے ہمیشہ رسوا ہوئے۔
جنرل مشرف نے جب کمانڈ اسٹک جنرل کیانی کے حوالے کی تو ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے‘ یہ منظر پوری دنیا نے دیکھا‘ نواز شریف سے بار بار کہا جارہا تھا کہ پاناما کیس کے باعث انہیں اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے لیکن وہ عدالت عظمیٰ کے آخری فیصلے تک انتظار کرتے رہے اور فیصلے کے بعد ایک رات بھی ایوان وزیر اعظم میں نہیں گزار سکے پیر پگارہ کہتے ہیں ’’نواز شریف کا اقتدار میں آنا مشکل ہے‘ پاناما کیس کے وقت استعفا دے دیتے تو صورت حال مختلف ہوتی‘‘۔ پیر صاحب بالکل درست کہتے ہیں‘ مستقبل کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا ہوگا تاہم پیر صاحب کی بات میں بہت وزن ہے نواز شریف کی نااہلیت کا فیصلہ آیا اور کابینہ بھی ٹوٹ گئی تو سیانے کہتے رہے کہ اسحاق ڈار کو کابینہ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اُن کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم جاری ہوا ہے، انہیں پہلے اپنے مقدمات سے بریت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، اُس کے بعد بلاشبہ وہ اقتدار میں واپس آسکتے ہیں۔ مگر کیا کہیے کہ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ جب نئی کابینہ بنی تو اسحاق ڈار پھر اس کابینہ کے حصہ تھے اب چھٹی لی ہے تو پتا چلا کہ وہ وزارت خزانہ کے ساتھ ساتھ پینتالیس کمیٹیوں کے چیئرمین تھے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عملاً حکومت تو وہی چلا رہے تھے اب یہ فیصلہ آگیا ہے کہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ نہیں رہے۔ طویل رخصت پر چلے گئے ہیں، جو ساکھ بچانے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں آخری دم تک اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش میں اکثر اوقات بہت کچھ گنوانا پڑجاتا ہے۔
جن لوگوں نے بھریا میلہ چھوڑنے کا راستہ اختیار کیا، وہ سرخرو رہے۔ ذرا امام خمینی کو دیکھیں، نیلسن منڈیلا پر نظر ڈالیں، ملائشیا کے مہاتر محمد کو دیکھیں اور ان کے مقابل عیدی امین‘ حسنی مبارک کو دیکھیں کیسے عبرت کا نشان بنے نظر آتے ہیں کچھ ایسا ہی حال ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی ہے جو جمہوری رویے کا راگ الاپتی رہتی ہیں‘ جس کے پاس کسی بھی جماعت کا عہدہ آجائے بس وہ اسے پھر چھوڑتا نہیں ہے‘ حالت یہ ہے کہ پارٹی چھوڑ دیتا ہے عہدہ نہیں‘ اسحاق ڈار کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ان کا نام بڑی شخصیات کے زمرے میں شامل ہے وہ نوازشریف کے سمدھی ہیں، ارب پتی ہیں، پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں، اپوزیشن پر داؤ پیچ آزما کر اسے اپنے ڈھب پر لانے میں بھی اُنہیں بڑی مہارت حاصل رہی ہے، لیکن اس سب کے باوجود وہ اس بصیرت سے عاری ثابت ہوئے جو بڑی شخصیت بننے کے لیے درکار ہوتی ہے وہ وقت کی نبض کو نہ سمجھ سکے‘ وزارتِ خزانہ سے چمٹے رہے، حالاں کہ انہیں اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عہدے سے علیحدہ ہو جانا چاہیے تھا، بھلے ان کے پاس صفائی میں کوئی ثبوت نہ ہوتے، وزارت چھوڑنے کی صورت میں ان کا سیاسی اور اخلاقی حوالے سے قد بڑھ جاتا مگر وہ یہ بڑا فیصلہ نہ کر سکے ان کے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ملک کے سیاسی حالات کی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے اگر گہری نظر سے اس کا جائزہ لیا جائے تو بات اس نکتے پر آکر رک جائے گی کہ مُلک میں احتساب نہ ہونے کی وجہ سے سیاست اور جمہوریت کو نقصان پہنچا۔
آج کرپشن کی وجہ سے نوازشریف نا اہل ہوئے ہیں، مگر ان کا سیاسی قد کاٹھ موجود ہے، اُنہیں دوبارہ پارٹی کی صدارت کا مینڈیٹ بھی مل گیا ہے۔ ان کے خلاف یہ سب کیس نئے نہیں، بہت پرانے ہیں۔ حدیبیہ پیر مل کیس تو بہت پرانا ہے، مگر اس کے بارے میں نہ تو بروقت فیصلے ہوئے نہ تفتیش کی گئی۔ بند کیس کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟ اگر یہ کیس کھولنا ہے تو بے شمار ایسے کیس ہیں جن کے فیصلے ہوچکے ہیں اور وہ بند کیے جا چکے ہیں پھر ان مقدمات کیا کیا ہوگا؟ احتساب کا نظام تو ایسا ہے کہ آصف علی زرداری گیارہ سال جیل میں تھے‘ مشرف کو حکومت بنانے کے لیے پیپلزپارٹی کی مدد درکار تھی تو آصف علی زرداری کے پاس رات کے اندھیرے میں کون کون نہیں آکر ملتا تھا نام لیا جائے تو پھر استحقاق مجروح ہوجائے گا آج کی حقیقت کیا ہے وہی زرداری‘ جس نے کہا تھا کہ تم تین سال کے لیے آتے ہو‘ ہم کو یہاں رہنا ہے‘ اس گفتگو پر رد عمل ہوا تو وہ بیرون ملک چلے گئے اب ملک میں ہیں اور ایک معتبر شخصیت بنے ہوئے ہیں کرپشن میں جیل کاٹی مگر ان پر ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہ کی جا سکی، آج وہ دامن جھاڑ کے کہتے ہیں لاؤ کوئی اور الزام مجھ پر ہے، تو لگاؤ، مَیں اُسے بھی غلط ثابت کر دوں گا۔ یہ ڈاکٹر عاصم حسین تو ابھی کل ہی پکڑے گئے تھے ساڑھے چار سو ارب کی کرپشن کے الزامات لگے تھے، نیب نے آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا، اب نہ ان الزامات کی کوئی خبر ہے اور نہ ڈاکٹر عاصم حسین جیل میں ہے، اُلٹا نیب کو لالے پڑے ہوئے ہیں اب شرجیل میمن قابو آئے ہوئے ہیں، ادھر ماضی کے دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف پانچ برسوں سے نیب کی تاریخیں بھگت رہے ہیں، کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا۔
آخر چکر کیا ہے نیب کِس تالاب میں ہاتھ ڈالتا ہے کہ جہاں مچھلیاں اُس کے قابو میں نہیں آتیں اب اس تناظر میں اگر مسلم لیگ (ن) والے، مریم نواز اور دوسرے یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ صرف ہمارے خلاف ہی اتنی پھرتیاں کیوں دکھائی جا رہی ہیں، تو انہیں غلط کیسے کہا جائے؟ چیئرمین نیب کی یہ بات بڑی بروقت ہے کہ نیب امتیازی سلوک کے تاثر کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا اور کسی کے ساتھ رعایت نہیں کی جائے گی، تاہم اگر وہ نیب کے اندر کوئی احتسابی عمل متعارف نہیں کراتے تو یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکے گی۔ پولیس کاوتیرہ ہوتا ہے کہ وہ تفتیش کو لمبا کرتے ہیں اس کا مقصد رشوت کے مواقع بڑھانا ہوتا ہے، کیوں کہ جوں ہی ایک بار چالان عدالت میں پیش ہو گیا، پھر معاملہ پولیس کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ نیب کے اندر اِس معاملے میں کیا طریقہ کار رائج ہے، تفتیشی افسران پر کیا پابندیاں ہیں، کیا نیب میں افسران کی کمی ہے کہ وہ تحقیقات میں اتنا طویل عرصہ لگا دیتے ہیں؟ یہ درست کہ وائٹ کالر کرائمز کو پکڑنے کے لیے بڑی محنت کرنا پڑ تی ہے، مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ نیب کو عام پولیس کے مقابلے میں کتنے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔ وہ ملزم کو ایک طویل مدت تک اپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں، جس محکمے اور ادارے سے چاہیں معلومات اور مدد لے سکتے ہیں۔ اگر نیب کی تحقیقات اور پراسیکیوشن کچھوے کی رفتار سے چلے گی تو احتساب ایک مذاق ہی بنا رہے گا۔ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ اس وقت نیب کے چیئرمین ایک سابق سینئر جج ہیں امید ہے اپنے اِس تجربے کو بروئے کار لا کر نیب کی کارکردگی کو بڑھانے پر بھرپور توجہ دیں گے اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے تو اُن کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوگا کہ نیب مُلک سے کرپشن ختم کرنے کا پکا عہد کیے ہوئے ہے۔