نشہ۔ خدا کی یاد واحد علاج

890

نشہ انسانی جبلّت میں ابتدا ہی سے دخیل چلا آرہا ہے۔ زمانہ قدیم کا انسان بھی جب مصائب سے دوچار ہوتا اور دُکھ درد میں مبتلا ہوتا تو اس کیفیت سے ذہنی فرار حاصل کرنے کے لیے وہ نشے کا سہارا لیتا تھا۔ اپنی یہ علت پوری کرنے کے لیے اس نے شراب ایجاد کی جو پھلوں کے رس کو سڑا کر تیار کی جاتی تھی اور نشہ آور مشروب کے طور پر استعمال ہوتی تھی اسے پی کر آدمی اپنے حواس سے باہر ہوجاتا تھا، اول فول بکنے لگتا تھا، بد اخلاقی اور بد اطواری پر اتر آتا تھا اور سماجی قدروں کو روند کر رکھ دیتا تھا۔ اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے خالق کائنات نے انسانوں میں انبیا بھیجے جن کا بنیادی مقصد ہی انسانوں کو اخلاق سکھانا اور انہیں اپنے ربّ کے ساتھ جوڑنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلام کے علاوہ جتنے بھی مسخ شدہ مذاہب موجود ہیں خواہ وہ یہودیت ہو، عیسائیت ہو، ہندومت ہو یا بدھ مت ہو ان سب میں شراب حرام ہے لیکن ان کے ماننے والے آزادانہ شراب کا استعمال کرتے ہیں۔ اسلام میں صرف شراب ہی حرام نہیں تمام نشہ آور اشیا حرام ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی نہ صرف شراب پیتی ہے بلکہ دیگر ممنوع نشہ آور اشیا بھی استعمال کرتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جس طرح دیگر مذاہب کی اخلاقی قدریں کمزور پڑ گئی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی اسلام کی روحانی و اخلاقی قدروں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اسلام کی یہ قدریں کمزور نہیں پڑیں بلکہ مسلمانوں کا ان سے تعلق کمزور پڑ گیا ہے۔ ان کا اپنے ربّ سے جو رابطہ رہنا چاہیے تھا وہ اب نہیں رہا۔ یہاں ایک واقعہ کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ ہم 2001ء میں حج پر جارہے تھے تو حاجی کیمپ میں ایک خان صاحب سے ملاقات ہوئی جو پشاور سے آئے تھے اور اسلام آباد کی پرواز سے حج پر جارہے تھے، سامان کی چیکنگ کے دوران ان کے اٹیجی کیس میں سے نسوار کا پیکٹ نکل آیا۔ سرکاری اہلکار نے انہیں گھور کر
دیکھا پھر اس پیکٹ کو اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور باقی سامان کو کلیئر کردیا۔ خان صاحب مضطرب ہوگئے انہوں نے سرکاری اہلکار پر زور دیا کہ نسوار کا پیکٹ سامان میں واپس رکھ دیا جائے کیوں کہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کا اصرار تھا کہ نسوار کا منشیات میں شمار نہیں یہ تو محض عادت کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ سرکاری اہلکار بھلا آدمی تھا اس نے انہیں بتایا کہ سعودی عرب میں نسوار کو منشیات کا درجہ حاصل ہے اگر ہم آپ کو یہاں سے نسوار سمیت کلیئر بھی کردیں تو جدہ ائرپورٹ پر اُترتے ہی پکڑے جائیں گے اور حج تو رہا ایک طرف آپ ساری عمر جیل میں پڑے سڑتے رہیں گے، ممکن ہے آپ کا سر بھی قلم کردیا جائے۔ اس لیے آپ خود کو آزمائش میں نہ ڈالیں، بات ان کی سمجھ میں آگئی لیکن پریشانی اور بے چینی ان کی پھر بھی ختم نہ ہوئی۔ ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ حج کی سعادت حاصل کرنے جارہے ہیں اس لیے نسوار کی علَت یہیں چھوڑ کر پاک صاف ہو کر اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کثرت سے استغفار کریں اور ہر وقت اللہ کے ذِکر سے اپنی زبان کو تر رکھیں۔ انہوں نے ہماری بات مان لی اور اللہ کے ذکر و استغفار میں مصروف ہوگئے۔ دو ڈھائی گھنٹے بعد حاجی کیمپ سے ائر پورٹ روانہ ہوئے تو راستے میں کہنے لگے ’’بڑا موثر نسخہ آپ نے بتایا ہے، دل کو سکون تو آگیا اب نسوار کی طلب نہیں رہی‘‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان جب اپنے ربّ سے تعلق جوڑتا ہے تو ہر قسم کے نشے سے بیزار ہوجاتا ہے اور اللہ کی یاد اسے اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
پوری دُنیا اس وقت منشیات کی لپیٹ میں ہے، حکومتیں انسداد منشیات کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اپنے وسائل کا ایک قابل ذکر حصہ اس کام پر صرف کررہی ہیں لیکن ان کے مقابلے پر منشیات کا کاروبار کرنے والا انڈر گراؤنڈ مافیا بھی بہت طاقتور اور خفیہ وسائل سے لیس ہے اور تمام تر انسدادی کوششوں کے باوجود یہ کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد اباحیت پسندی نے پَر پُرزے نکالے تو نشے کو بھی مباح قرار دے دیا گیا اور شراب نوشی پورے یورپ کا کلچر بن گئی۔ مرد، عورتیں، بوڑھے، جوان سب شراب پینے لگے البتہ بچوں کو اس نشے سے دور رکھا گیا تا کہ وہ بچپن ہی میں نشے کے عادی ہو کر معاشرے پر بوجھ نہ بن جائیں۔ شراب نوشی نے اخلاقی بے راہ روی اور جنسی آوارگی کو بھی فروغ دیا اور اس کے بطن سے ایک مادر پدر معاشرے نے اپنی تمام تر قباحتوں کے ساتھ جنم لے لیا۔ اس طبقے کی محض شراب نوشی سے تسلی نہ ہوئی وہ نشے کے نئے نئے گُر تلاش کرنے لگا، آخر یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا دور تھا اس لیے نیا نشہ ایجاد کرنا کون سا مشکل تھا۔ اس بگڑے ہوئے آدمی نے اپنی تسکین کے لیے ہیروئن کا نشہ دریافت کرلیا جو سب نشوں سے زیادہ قاتل نشہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہیروئن ایشیائی ملکوں میں تیار ہوتی ہے لیکن اس کے لیے جدید ترین لیبارٹری تو یورپ ہی نے فراہم کی ہے اور اس کا سب سے بڑا خریدار بھی یورپ ہی ہے۔ ایشیائی ملکوں میں ہیروئن کی تیاری کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں افیون کی صورت میں اس کا خام مال دستیاب ہے اس لیے ہیروئن بنانے والے لیبارٹریاں بھی یہیں کام کررہی ہیں پھر یہاں سے ہیروئن یورپ سمیت پوری دُنیا میں اسمگل ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ افیون افغانستان میں پیدا ہوتی ہے، طالبان حکومت نے اپنے دور میں پوست کی کاشت پر پابندی لگادی تھی اور افیون کی پیداوار صفر ہو کر رہ گئی تھی اور اس کے نتیجے میں ہیروئن بھی نایاب ہوگئی تھی۔ یہ بات امریکا اور یورپ کو پسند نہ آئی اور انہوں نے مل کر طالبان حکومت اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اب پھر وہاں پوست کی کاشت اور افیون کی پیداوار زوروں پر ہے اور لیبارٹریاں دھڑا دھڑ ہیروئن بنارہی ہیں۔
یورپ یا امریکا سمیت پوری مغربی دُنیا چاہتی ہے کہ اس نے نشے کا عادی اور جنسی بے راہ روی کا شکار جو مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل دیا ہے، کرہ ارض پر بسنے والے سارے انسان اس جیسے ہوجائیں۔ خاص طور پر مسلمان ملکوں میں موجود معاشرہ اسے بہت کھلتا ہے جو اس گئے گزرے دور میں بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہے اور جس میں جزا و سزا اور آخرت میں جوابدہی کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس تصور کو تبدیل کرنے کے لیے مغربی قوتیں عالم اسلام میں اپنی پوری قوت آزما رہی ہیں۔ پاکستان بھی ان تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ نصاب تعلیم سے مذہب کو بے دخل کیا جارہا ہے اور ثقافت و ترقی پسندی کے نام پر اخلاقی بے راہ روی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری نوجوان نسل بھی اپنی ذہنی تسکین کے لیے نشے کا سہارا لے رہی ہے اور ہماری یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں میں منشیات تیزی سے پھیل رہی ہیں اور لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی اس کا شکار نظر آتی ہیں۔ انہیں اس وبا سے بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ان کا تعلق اپنے ربّ سے جوڑا جائے اور ان کی تعلیم کو مذہب کی اخلاقی قدروں پر استوار کیا جائے۔ یہ کام ایک اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔