منصب کی طلب

411

محمد نصیرالدین

قیادت، منصب اور عہدے کی خواہش، تمنا اور آرزو موجودہ دور کا نیا فتنہ ہے۔ عمومی چلن یہ ہے کہ اقتدار، وزارت، صدارت، عہدے اور مناصب کے لیے کوشش، دوڑ دھوپ، گروپ بندی، نجویٰ، سازشیں عام بات ہوگئی ہیں، حتیٰ کہ آج کا انسان عہدے اور منصب کے لیے اْصول و اخلاق کی تمام حدوں کو پار کرنے لگا ہے۔
قیادت و سیادت پر کسی کو فائز کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ کہیں نامزدگی ہے، کہیں الیکشن ہے، اور کہیں نسل در نسل اقتدار کی منتقلی ہوتی ہے لیکن قیادت ومنصب حاصل کرنے کا شوق، خواہش، آرزو، تمنا، ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ملک، قوم، علاقہ، سیاسی یا سماجی تفریق کے بغیر یہ چیز عام ہے، کیونکہ قیادت و منصب، عزت وشہرت، نام وَری، آرام وآسایش، دنیاوی چکاچوند، رعب و دبدبہ کے حصول کا آسان ذریعہ بن گیا ہے۔ قیادت ومنصب کے دعوے دار عموماً اپنی اس خواہش کے پیچھے قوم وملت کی خدمت و سربلندی، ملک کی ترقی، تنظیم کا استحکام اور بعض وقت دین کی خدمت کا بھی دعویٰ کرتے ہیں، لیکن مشاہدہ بتلاتا ہے کہ حصولِ مقصد کے بعد وہ اپنے پوشیدہ مقاصد کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ دنیاوی جاہ و عظمت، شہرت و عزت و نام وَری، اشتہار بازی، آرام و آسایش کی تمنا اور اقربا پروری ان کی روز مرہ سرگرمیوں میں بہ آسانی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس الحمدللہ اسلامی تحریکات اس مرض اور اس ذہنیت سے دْور ہیں، تاہم اگر کہیں اس کے آثار پاے جاتے ہون تو ان کے سدباب کی فکر کی جانی چاہیے۔
دین اسلام کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے عہدہ و منصب کے سلسلے میں بھی اپنے ماننے والوں کو واضح رہنمائی کی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلی چیز یہ سکھلائی گئی کہ کوئی بھی فرد اپنے اندر عہدہ یا منصب کی آرزو یا تمنا نہ رکھے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’کبھی امارت کی طلب نہ کرو۔ اگر تمھیں مانگنے سے ملے تو تم نفس کے پھندوں میں پھنس جاؤ گے اور اگر بے طلب ملے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری مدد ہوگی‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’ایک زمانہ آئے گا کہ تم لوگ امارت و سرداری کی تمنا کرو گے حالانکہ یہ قیامت کے دن ندامت کا سبب ہوگی۔‘‘ (بخاری) ابوموسیٰ اشعریؓ نے ایک اور حدیث روایت کی ہے کہ ان کے ساتھ آئے ہوئے اشعریوں میں سے دو اشخاص نے نبی کریمؐ سے عہدہ طلب کیا تو آپ نے فرمایا: ہم اس شخص کو جو عہدے کا طلب گار ہو، کام اور عہدے کی ذمے داریاں سپرد نہیں کرتے۔‘‘ مذکورہ احادیث کی روشنی میں جب مسلم معاشرے کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ مذکورہ ہدایات سے گویا کہ لوگوں نے منہ پھیر لیا ہے۔ چنانچہ مختلف انداز، طور طریقے اور رنگ ڈھنگ علانیہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کس شخص میں عہدہ اور منصب کی خواہش انگڑائیاں لے رہی ہے۔
اْمت مسلمہ میں علما اور حکمرانوں کو خاص اہمیت حاصل ہے کیوں کہ جب تک یہ اسلام پر ثابت قدم رہیں گے اور اسلام پر کاربند رہیں گے تو ساری اْمت بھی اسلام پر چلے گی اور اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے گی۔ جس قوم کے حکمران درست نہیں ہوتے وہ قوم بھی درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح کسی تحریک اور جماعت کے استحکام، فروغ اور پھیلاؤ کا دارومدار بھی اس جماعت کے سربراہ پر منحصر ہوتا ہے۔ کوئی جنگ محض فوجیوں کی کثرت اور وسائل کی فراوانی کی بنیاد پر نہیں جیتی جاتی بلکہ فوج کے سربراہ کی قابلیت، ذہانت، چابک دستی، دانش مندی اور احساسِ ذمے داری کے سہارے جیتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’دو گروہ ہیں، اگر وہ درست ہوں تو اْمت درست ہے اور اگر وہ بگڑ جائیں تو اْمت بگڑ جائے: حکمران اور علما۔‘‘
اخوان المسلمون کے مشہور رہنما محمد الغزالی نے قیادت و منصب کے متعلق بڑی جامع باتیں ارشاد فرمائی ہیں: ’’ہماری تاریخ اسلام میں پھیلنے والی بدترین خصلت قیادت سے محبت اور امارت کی حرص ہے، جب کہ اسلام نے اس سے سختی سے ڈرایا ہے اور اْمت کو صاف حکم دیا ہے کہ جو شخص اس کی خواہش رکھتا ہو، اس کا لالچ اسے جدوجہد پر آمادہ کرتا ہو، اور وہ اس مرتبے پر پہنچنے کے لیے تمام ممکن ذرائع و وسائل استعمال کرتا ہو، یہ عہدہ اور منصب کبھی اس کے حوالے نہ کیا جائے۔ لیکن ہمارے یہاں ایسے افراد کی کمی نہ تھی جو قیادت سے عشق رکھتے تھے تاکہ سوسائٹی پر اپنی چودھراہٹ مسلط کر سکیں، ان میں ایسے افراد کم تھے جو اپنے اندر قیادت اور رہنمائی کی صلاحیت اور صفات کے حامل تھے، بلکہ بیش تر اپنی ذات کو نمایاں کرنے اور دوسروں سے آگے بڑھ جانے کی خواہش کے مریض تھے۔ نیک بخت قومیں اپنی قیادت کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں دیتی ہیں جو کسی ذمے داری کو لیتے ہوئے قلق اور اضطراب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور دولت و ثروت سمیٹنے اور دوسروں پر برتری جمانے کے عزائم ان کے اندر دب چکے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اسلامی تاریخ کو ایسے افراد اور خاندانوں ہی نے ریزہ ریزہ کیا جو حکومت کو واسطہ بنا کر اقتدار اور عیش و عشرت پر قابض ہوجانا چاہتے تھے۔ تباہی ہے ایسی اْمت کے لیے جس نے اپنی زمامِ کار بدترین لوگوں کے حوالے کی اور اِس خدائی فرمان سے سرکشی کا اظہار کیا: ’’بے شک اللہ انھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (عہدے اور مناصب) اہل لوگوں کے سپرد کرو۔‘‘
عہدہ اور منصب کی طلب یقیناً ایک فتنہ ہے لیکن اس سے بڑی خرابی یہ ہے کہ کسی ملک، قوم، جماعت اور گروہ کی سربراہی کے لیے لوگ عہدہ اور منصب کے طلب گاروں یا نااہلوں کے حق میں راے دیں یا ان کی تائید کریں۔ اپنے مفادات کے لیے، دوستی یا تعلق کی بنا پر احسان کی قیمت کے طور پر یا کسی اور غرض یا وجہ سے اہل، قابل، باصلاحیت اور موزوں افراد کے مقابلے میں کمزور، نااہل یا غیرموزوں افراد کے حق میں راے دینا یا ان کے حق میں فیصلہ کرنا یا ان کا تقرر کرنا صریح طور پر حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی ہے۔ بعض لوگ اپنی راے کا استعمال یوں ہی بے سمجھے بوجھے یا عدم سنجیدگی کے عالم میں کردیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر غیر موزوں افراد مختلف عہدوں اور مناصب پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی ہدایت الٰہی سے صرفِ نظر کرنے کے مماثل ہے۔ بسا اوقات لوگ راے کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے مشوروں کو بلاسوچے سمجھے قبول کرلیتے ہیں اور جس منصب کے لیے انھیں راے دینا ہے اس منصب کے لیے ضروری صفات کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ ایسے میں نااہل لوگوں کا انتخاب ہونے کا امکان رہتا ہے جس کی وجہ سے بعد میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے۔ تحریک اور تنظیم کے فروغ اور استحکام کی فکر کرنا اور انتخاب کے موقع پر عدم سنجیدگی کا رویہ اختیار کرنا بجاے خود توجہ طلب ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: جب امانتیں ضائع کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ (پوچھا گیا) یارسول اللہ، امانت کا ضائع ہونا کیسے ہوگا؟ فرمایا: ’’جب کام نااہل کے سپرد کیا جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ (بخاری)