ایک نکاتی مطالبہ

320

فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی اہمیت کیا ہے؟؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسے مقامات ہیں کہ دُنیا میں کوئی دوسرا مقام ایسا نہیں۔۔۔ دُنیا کی نصف سے زیادہ آبادی یعنی تیرہ ارب سے زیادہ افراد فلسطین یا اس کے کسی ایک حصے کو مقدس تسلیم کرتے ہیں۔ دین ابراہیم کے تینوں مذاہب اسلام، نصرانیت اور یہودیت کے علاوہ دیگر کئی دوسرے مذاہب کے نزدیک فلسطین ارض مقدس ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مسجد قبلہ اول ہے، بیت المقدس مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کی تیسری مکرم مسجد ہے۔ رسول اللہؐ کے ارشاد کے مطابق الاقصیٰ میں ایک نماز پانچ سو نمازوں کے برابر ہے۔ یہ کعبہ کے بعد دُنیا میں بننے والی دوسری مسجد ہے۔ یہ وہ مقدس مسجد ہے جہاں رسول اللہؐ اپنے سفر شب (اسریٰ) پر تشریف فرما ہوئے اور معراج پر تشریف لے گئے۔ اس لیے مسلمان مسجد اقصیٰ کو آسمانوں کے دروازے سے موسوم کرتے ہیں۔
قرآن اور احادیث میں فلسطین کو بابرکت اور مقدس کہا گیا ہے۔ احادیث میں کہا گیا ہے کہ فلسطین اور اس کے اردگرد ایسے مسلمان بستے ہیں جو فاتح ہیں اور پرہیز گار ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’میری اُمت کا ایک گروہ ایسا ہوگا کہ سب کچھ برداشت کرنے کے باوجود حق پر رہے گا اور کبھی گمراہ نہ ہوگا۔ صحابہ کرام نے پوچھا ’’یا رسول اللہ وہ لوگ کہاں رہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ’’بیت المقدس اور اس کے گردونواح میں‘‘۔
مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) دُنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ خلیفہ دوم سیدنا عمرؓ کے عہد میں 15ہجری بمطابق 636ء فلسطین فتح ہوا، سیدنا عمرؓ نے خود یروشلم تشریف لا کر شہر کی چابیاں وہاں کے بطریق سے لیں اور مسلمان بغیر کسی خون خرابے کے اس میں داخل ہوئے۔ اس موقعے پر وہ مشہور معاہدہ ہوا جس کو ’’عہد العمریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ آج بھی مسجد اقصیٰ میں موجود ہے۔ اس معاہدے میں فلسطین کے مقامی لوگوں کو جن میں عیسائی بھی شامل تھے تحفظ دیا گیا۔ مسلمانوں کے حسن سلوک سے یہاں کی پوری آبادی جو کنعانیوں اور فلسطینیوں پر مشتمل تھی انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ علاقے میں خوش حالی اور رواداری کا نیا دور شروع ہوا، مقامی آبادی مسلمانوں سے گھل مل گئی اور عربی سب کی زبان بن گئی۔ اس کے بعد بارہ سو سال تک فلسطین پر مسلمانوں کی حکومت قائم رہی، درمیان 1099ء میں عیسائیوں نے القدس پر قبضہ کیا، لوٹ مار اور قتل و غارت کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس دوران 88 سال تک مسلمانوں کو اس علاقے میں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں کی جاتی رہیں، آخر کار اس ظلم کے خلاف سلطان صلاح الدین ایوبی کی تلوار اُٹھی۔ اُس نے مسلمانوں کو عیسائیوں کی اس لاطینی ریاست کے ظلم سے نجات دلائی۔ جولائی 1187ء میں فلسطین کی فیصلہ کن جنگ میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ 2 اکتوبر 1187ء میں مسلمان 88 سال کے بعد فاتحانہ انداز میں دوبارہ فلسطین میں داخل ہوئے۔
فلسطین کی تاریخ میں صلیبیوں کے 88 سال وحشیانہ عرصے کے سوا مسلم حکومت کا یہ دور سب سے طویل دور ہے جو 1918ء تک قائم رہا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں فلسطین میں صرف پانچ ہزار یہودی رہ رہے تھے۔ یہ یہودی بھی ترک و تاتار کی ملی جلی نسل سے تھے۔ جنہیں خِزری یہودی کہا جاتا ہے عثمانی سلطنت کے آخری دور میں یہودیوں نے چور دروازے سے یہاں آکر رہنا شروع کردیا۔ عثمانی سلطنت زوال پزیر تھی، یہودیوں نے ان کے بدعنوان افسروں کو رشوتیں دے کر اراضی پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانی شکست سے دوچار ہوئے، برطانیہ نے فلسطین کو اپنی نو آبادی بنالیا، برطانیہ نے اپنے لیے یہودی خدمات کا صلہ انہیں اسرائیلی ریاست کی شکل میں دے دیا۔ 1948ء میں برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی تو یروشلم اس کا حصہ نہیں تھا۔ فلسطین کی پوری مسلمان آبادی کو سنگینوں کی نوک پر نکال باہر کیا گیا۔ فلسطینیوں کی بستیوں اور زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا، فلسطینی باغبانوں کے درخت کاٹ دیے گئے، آج بھی بلڈوزروں کے ذریعے بچے کھچے فلسطینیوں کے گھروں کو گرانا اسرائیلی حکام کا روز مرہ کا مشغلہ ہے۔
آج جسے بین الاقوامی طور پر اسرائیل کہا جاتا ہے، 1948ء سے یعنی اپنی ابتدا سے ان علاقوں پر مشتمل ہے جو فلسطینیوں کے ہیں، جنوبی کوریا کے صدر نے صحیح کہا کہ جب کوئی ملک ہی نہیں تو اس کا دارالحکومت کیسے ہوسکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس وعدے پر اسرائیلی لابی کے طاقت ور ترین گروپ سے حمایت حاصل کی تھی وہ یہ ہی تھا کہ وہ امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کردیں گے اور انہوں نے صرف آٹھ ماہ میں اپنا وعدہ پورا کردکھایا۔
امریکی صدر کا یہ فیصلہ خود امریکی خارجہ پالیسی سے نحراف ہے، ایک ایسی پالیسی جس پر امریکا پچھلے پچاس سال سے عمل پیرا تھا۔ اس سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اسرائیل کے دُنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا پر کتنے گہرے اثرات ہیں۔ کیا اس وقت امریکی پالیسی سے انحراف کرکے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے میں امریکی حکام نے خسارے کا سودا کیا ہے؟ یقیناًنہیں!! امریکی حکام نے سارے رد عمل کا اندازہ بھی کیا ہوا تھا۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ عرب ریاستیں تباہی کا شکار ہیں، کتنی ہی ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ بیک ڈور میں تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اُمت مسلمہ میں شدید ردعمل ہے لیکن ان میں شدت عوام کی جانب سے نظر آتی ہے نہ کہ حکمرانوں کی جانب سے۔۔۔ لیکن عوام اپنے حکمرانوں کو شدید ردعمل دینے پر مجبور کرسکتے ہیں، ان کا صرف ایک نکاتی مطالبہ امریکا کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے کہ مسلم حکمران امریکا سے معاشی اور تجارتی تعلقات ختم کرلیں۔