سیّدنا ابو بکر صدیق ؓ ٹھیک تھے یا یہ لوگ ٹھیک ہیں ؟

474

بابا الف کے قلم سے

آج بھی بیت المقدس کے حوالے سے امریکا کی بابت ہی بات کرنی ہے لیکن بہ زبان جالب، حبیب جالب
نہ ہم نے بم بنائے ہیں نہ ہم نے بم گرائے ہیں
یہ سب کرتوت کالے آپ کے حصے میں آئے ہیں
مظالم آپ کے ویتنام پر دنیا نہیں بھولی
سدا آپ امن کی شمعیں بجھا کر مسکرائے ہیں
میں گن کس طرح گاؤں آپ کی بندہ نوازی کے
میرے سرپہ ہمیشہ آپ نے آمر بٹھائے ہیں
وہاں افلاس اُگا ہے زندگی بھرتی رہی آہیں
زمیں کے آپ جس گوشے میں بھی تشریف لائے ہیں
عرب کی سرزمیں کو آپ اپنی ہی زمین سمجھیں
کہاں اب آپ جائیں گے ابھی تو آپ آئیں ہیں
مسلم ممالک کے حکمرانوں کے بارے میں انہوں نے کہا تھا:
کہاں نسبت انہیں کعبے سے بھائی
کریں جو بش کے درپہ جبہ سائی
ہماری مصروفیات اور اہل فلسطین کی جدوجہد آزادی میں تنہائی پر انہوں نے کہا تھا:
اُدھر جانوں کی شمعیں بجھ رہی ہیں
اِدھر برپا پتنگوں کی لڑائی
یہاںآپس میں ہم دست وگریباں
وہاں باطل سے پنجہ آزمائی
اور یہ بھی جالب نے ہی کہا تھا:
خون میں جب شامل ہوجائے شاہوں کی خوشنودی
پھرکب یاد رہا کرتی ہے لوگوں کی بہبودی
اللہ کے بندوں کو جانے کب ہوش آئے گا
سادہ لوحوں پر چھائی ہے صدیوں سے نمرودی
ارض فلسطین برسوں سے ہے جن کے قبضے میں
یاد نہ آئے کسی کو اب تک وہ سفاک یہودی
اک قیامت ٹوٹ رہی ہے درد کے ماروں پر
دن ہیں شور دھماکوں والے راتیں ہیں بارودی
آسماں تا ابد ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد سے ایک ٹی وی انٹرویو میں دریافت کیا گیا مسلمانوں پر کہیں بھی آفت ٹوٹے جماعت اسلامی سڑکوں پر آجاتی ہے کیا سارے جہاں کا درد آپ کے جگر میں ہے۔ قاضی صاحب نے اپنے مخصوص پختون لہجے میں گرجدار آواز میں جواب دیا تھا ’’ہاں ہاں سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔‘‘ ایک زمانہ تھا یہ بات مسلمانوں کا فخر تھی:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
یہ محض شاعرانہ تعلی نہیں تھی۔ ترک ناداں کے ہاتھوں خلافت کی قبا چاک ہونے پر جتنے آنسو مسلم ہندوستان نے بہائے تھے اس کے اثرات آج بھی ترکی میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح امریکا کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہی پاکستان میں حکمران، سیاسی و دینی جماعتیں اور مختلف پریشر گروپ بر سر احتجاج آگئے۔ لیکن بدقسمتی سے مسئلے کے حل کے لیے ان کی طرف سے جو مطالبات اور تجاویز سامنے آرہی ہیں وہ مسئلے کے حل کے بجائے ایک ہی سوراخ سے بار بار خود کو ڈسوانے کا عمل ہے۔ بیش تر سیاسی ودینی جماعتیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ سے اپیل کرنے اور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں۔ مسلم ممالک اور عوام کے معاملے میں اقوام متحدہ کا کردار صفر سے بھی کئی درجے کم ہے۔ علامہ اقبال نے لیگ آف نیشنز کے بارے میں کہا تھا: ’’میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے مل کر ایک انجمن بنائی ہے تاکہ قبریں آپس میں تقسیم کرلیں۔‘‘ اقوام متحدہ کا کرداراس سے سوا ہے۔ اقوام متحدہ ان قبروں کے لیے لاشیں فراہم کرنے والا ادارہ ہے جن میں سے اکثر لاشیں مسلمانوں کی ہوتی ہیں۔ جہاں تک عالمی رائے عامہ کا تعلق ہے تو اس سے مراد مغرب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف مغرب میں بھر پور احتجاج کیا جارہا ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آخری معرکے میں کفر ملت اسلامیہ کے مقابلے میں ملت واحدہ ہے۔ مسلمانوں کے تقریباً تمام حکمرانوں کی طرف سے اقوام متحدہ، عالمی رائے عامہ یا پھر او آئی سی اور عرب لیگ سے مطالبات کیے جارہے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔ یہ امت کو فریب دینے کی کوشش ہے، امت کے تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے۔ جہاد۔ سرمایہ دارانہ نظام دو صورتیں پیدا کرتا ہے ایک خوشحالی اور دوسری جنگ۔ خوشحالی سے مغرب نے اپنے دیار سجائے ہیں اور جنگ امت مسلمہ پر مسلط کر رکھی ہے۔ امت مسلمہ حالت جنگ میں ہے اور حالت جنگ میں جو جنگ سے گریز کرتا ہے تباہی، بربادی ذلت اور رسوائی اس کا مقدر بنتی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا ایک ایسی طاقت ہے نہ اس کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے اور نہ اس سے جنگ کی جاسکتی ہے۔ یہ غلط خیال ہے۔ ویت نام سے افغانستان تک امریکا کی جنگی شکست کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ عزت کے حصول کی راہ میں ہم قربانیاں دینے اور تباہی وبربادی سے اتنا ڈرنے کیوں لگے ہیں۔ سیّدنا ابو بکر صدیقؓ خلیفہ بنے تو تمام فتنے ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کسی بھی فتنے کی سر کوبی کو التوا میں ڈالے بغیر ہر طرف افواج بھیجیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی کہ کچھ فتنوں کی پامالی کو موخر کردیا جائے اور وہاں افواج نہ بھیجیں جائیں ورنہ مدینہ خالی ہوجائے گا اور داخلی صورت حال کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ سیّدنا ابو بکر صدیقؓ نے اس پر فرمایا: ’’یہ تمام لشکر جائیں گے چاہے بعد میں مدینے کے کتے ہی ہمیں کیوں نہ بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھا جا ئیں۔‘‘ آج بھی ایسا ہی گمان کیا جاتا ہے کہ ہم نے امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے جہاد اور لشکر کشی کی راہ اختیار کی تو ہم برباد ہوجائیں گے۔ سیّدنا ابو بکر صدیقؓ ٹھیک تھے یا یہ لوگ ٹھیک ہیں؟
(برائے ایس ایم ایس: 03343438802)