سولہ دسمبر …سقوط ڈھاکا

1108

ہم کہاں کھڑے ہیں

میاں منیر احمد، اسلام آباد
سقوط ڈھاکا ہوئے چھیالیس برس گزر چکے ہیں‘ پاکستان کی ستر سال کی زندگی میں یہ سب سے مشکل‘ اذیت ناک اور تکلیف دہ مرحلہ اور موقع تھا کہ جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کوئی ایک دن میں نہیں ہوئی اس کے پیچھے ایک منظم سازش اور مکروہ منصوبہ بندی ہے جس کی آبیاری قیام پاکستان کے تین سال کے بعد1951 میں ہی شروع ہوگئی تھی 1951 کے بعد سات سال تک اس کھیل اور منصوبہ بندی کی نگرانی بھی عالمی سطح پر ہوئی ہے ان سات سال میں پہلا وار پاکستان کی نظریاتی اساس اور بنیاد پر کیا گیا اور ملک میں زبان کا مسلئہ اچھالا گیا‘ ایک مسلمان قوم کو‘ جس نے بے پناہ قربانیوں کے بعد یہ ملک حاصل کیا اسے بنگالی‘ ارود اور پنجابی زبان کے کھیل میں ملوث کردیا گیا اس دوران 1956 کا دستور بنا لیکن دو سال کے بعد جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگا دیا ایوب خان کا دس سالہ دور سیاسی لحاظ سے تباہ کن ثابت ہوا ان کے دور میں 1962 کا آئین بنا اور پھر یہ آئین خود ہی اپنے ہاتھوں سے ملیا میٹ بھی کردیا‘ ان کے دور میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں مرکز کے بارے میں بے گانگی پیدا ہوئی اور تیزی سے پھیلتی بھی چلی گئی ان کے ہوس اقتدار نے حالت یہاں تک بگاڑ دیے کہ انہیں اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرکے خود رخصت ہونا پڑا جنرل یحییٰ کان کا دور تو ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوا یحییٰ خان نے انتخابات کرائے تو انہیں بتایا گیا کہ ملک میں ایک معلق پارلیمنٹ بنے گی لیکن جب نتائج آئے تو عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں 162 میں سے 160 نشستیں جیت گئی اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کو 138 میں سے 81 نشستیں ملیں‘ یہیں سے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے مکروہ دھندے اور منصوبہ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے میں تاخیر کی گئی‘ اقتدار کی منتقلی کی راہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں‘ سول ملٹری بیورو کریسی کی نااہلی کھل کر سامنے آئی اور برصغیر کے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے ووٹ کی طاقت سے بننے والا ملک سول ملٹری بابوئوں کے ہاتھوں دو لخت ہوا برصغیر کی تاریخ میں مسلمانوں کو پیش آنے والے المیوں میں خلافت عثمانیہ کے بعد سقوط ڈھاکا دوسرا بڑا بدترین سانحہ تھا۔

2
بانی ٔ پاکستان محمد علی جناح کے انتقال کے بعد جس طرح ملک میں اقتدار اور کرسی کا میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوا اس نے تو تحریک پاکستان کی صدیوں کی بے پناہ قربانیوں کی تاریخ لمحوں میں مٹا کر رکھ دی 1951 بنگالی رہنماء خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے‘ لیاقت علی خان قتل ہوئے تو وہ وزیر اعظم بن گئے اور ملک غلام محمد گورنر جنرل بن گئے ان کا گورنر جنرل بننا اس بات کی علامت اور ابتداء تھی کہ اب بیورو کریسی ملک اور حکومت پر قابض ہوگئی ہے اسی دوران ملک میں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی اور ملک میں جزوی مارشل لا نافذ کرنا پڑا اس تحریک میں خود حکومت ملوث تھی اس وقت کی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق مرکز کے خلاف صوبائی حکومت سرگرم عمل تھی ممتاز دولتانہ خواجہ ناظم الدین کی جگہ خود وزیر اعظم بننا چاہتے تھے‘ خواجہ ناظم الدین کو ہٹایا گیا تو پہلی بار وزیر اعظم برآمد کیا گیا اور واشنگٹن سے بنگالی رہنماء محمد علی بوگرہ کو بلا کر انہیں ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا لیکن مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی صورت حال بہتر نہ ہوسکی اور ملک غلام محمد نے محمد علی بوگرہ کو بھی برطرف کردیا ان کے بعد چودھری محمد علی کو حکومت دی گئی 1956 کے آئین کے تیرہ ماہ کے بعد اسکندر مرزا نے انہیں بھی برطرف کردیا ان سے مطالبہ یہ کیا تھا کہ وہ ری پبلکن پارٹی بنائیں اور مغربی پاکستان میں حکومت کریں اسکندر مرزا اعلی درجے کے بدترین سازشی تھے۔ چودھری محمد علی کے بعد عوامی لیگ کے حسین شہید سہروردی کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی‘ سہروردی بھی زیادہ عرصے نہ چل سکے ان کے بعد آئی آئی چندریگر کو حکومت کا سربراہ بنایا گیا وہ دو ماہ ہی حکومت چلا سکے اور ان کے بعد پھر ری پبلکن پارٹی کے فیروز خان نون حکومت کے سربراہ بنائے گئے لیکن دس ماہ کے بعد جنرل ایواب خان نے سب کو چلتا اور ملک میں مارشل لا لگا دیا اور دس سال کے بعد ملک اس حال میں چھوڑا کہ جنرل یحییٰ خان کو دن رات کا فرق ہی معلوم نہیں تھا ان کے دور میں ایوان صدر ریڈ لائٹ ایریا بنا ہوا تھا ان کے دور صدارت کے حوالے سے ایسے ایسے قصے تاریخ میں ملتے ہیں کہ خدا کی پناہ‘ ان کے دور صدارت میں انتخابات ہوئے تو نتائج ہی تسلیم نہیں کیے گئے‘ اسمبلی میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن یحییٰ خان‘ بھٹو‘ اور مجیب ملکی حالات کو وہاں تک لے گئے جہاں سے واپسی مشکل سے مشکل بنتی چلی گئی۔ شیخ مجیب کے چھ نکات اور اس کے حوالے سے سیاسی رہنمائوں کے مذکرات دھرے کے دھرے رہ گئے جو ملک برصغیر کے مسلمانوں کے اتحاد کے نتیجے میں وجود میں آیا وہ اقتدار کی ضد کے ہاتھوں دو لخت ہوگیا۔

3
مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے کے ملکی حالات کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اگر ماضی کے ان حالات کا آج کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو ملکی حالات میں سیاسی استحکام آج بھی کہیں نظر نہیں آرہا پاکستان اس وقت بھی بھارت کی سازشوں کا شکار ہوا اور مشرقی پاکستان الگ ہوگیا آج بھی ہمیں مشرقی سرحد پر بھارت کی مکروہ منصوبہ بندیوں کا سامنا ہے اور مغربی سرحد پر ہمیں کابل سے بھی ٹھنڈی ہوائیں نہیں مل رہیں بلوچستان میں اس خطہ کی سب سے بڑی منصوبہ بندی کا سامنا ہے جس کے لیے افرادی قوت‘ پیسہ‘ سرمایہ‘ وسائل سب کچھ بھارت اور دیگر غیر ملکی خفیہ ایجینسیوں سے مہیا کیا جارہا ہے مشرقی پاکستان کو باقاعدہ حملہ کرکے الگ کیا گیا تھا اس بار نئی حکمت عملی تیار کی گئی ہے کہ جنگ کے بغیر ہی ہدف حاصل کیا جائے بھارت خفیہ جاسوس کلبھوشن‘ اور اس کے گروہ میں کام کرنے والے تمام لوگ پاکستان کے خلاف سر گرم ہیں ہماری مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان معاشی استحکام اور سیاسی قوت حاصل نہ کرپائے تاکہ کہیں وہ اس خطہ میں لیڈنگ رول کرنے کے قابل نہ بن سکے امریکا یہی چاہتا ہے کہ بھارت اس خطہ میں تھانیدار بن کر رہے‘ بھارت کو اس حوالے سے ہر قسم کے وسائل اور سرپرستی مہیا کی جارہی ہے افغانستان کے اندر بیٹھ کر بھارت پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے گماشتوں کے ذریعے گاہے گاہے کارروائیاں کرتا رہتا ہے ابھی حال ہی میں پشاور کی زرعی یونیورسٹی میں دہشت گردی کی کارروائی کی گئی ہے‘ ملک کو درپیش یہ حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں اور قومی سلامتی کے ادارے یک جان دو قالب کی طرح کام کریں اگر اس کے برعکس اپنے اپنے کھیل اور اپنے اپنے شملے اونچے کرنے کی ضد اور ہٹ دھری برقرار رہی تو یہ ملک کسی نئے سانحے کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے اس وقت خلیجی ممالک ایک بحران کا سامنا کر رہے ہیں‘ بلاشبہ یہ خلیجی ممالک مسلم دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت کا درجہ رکھتے ہیں اگر یہ بحران کا شکار رہے تو مغرب کے مقابلے میں مسلم دنیا معاشی طور پر حد درجہ کمزور ہوتی چلی جائے گی اور پاکستان پر اس کے براہ راست اثرات پڑیں گے آج وقت ہے کہ ہم چھیالیس سال قبل ہونے والے سانحے سے کوئی سبق سیکھیں اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے ہر پاکستانی اپنی اپنی حد تک اپنا کردار ادا کرے۔
nn