مشر ق وسطیٰ کا نیا بحرا ن

363

عراق، شام، لیبیا اور یمن میں جاری آگ اور خو ن کا کھیل ابھی تھما نہیں ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جا نب سے پچاس سالہ پرانے اور متنازع ایشوکو چھیڑتے ہوئے امریکی سفارت خا نے کو تل ابیب سے مقبو ضہ شہر یروشلم کو منتقل کرنے کا اعلان سامنے آنے سے نہ صرف فلسطین اور عالم عرب میں تشویش اوراشتعال کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ یورپ، افر یقا، ایشیا اور لا طینی امریکا سے بھی اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ فیصلے کے خلاف آوازیں اُٹھ ر ہی ہیں۔ سلامتی کونسل پہلے ہی اگر ایک طرف یروشلم متنازع علاقہ قرار دے کر اس مسئلے کو فلسطینی ریاست کے قیام کے منصوبے کا حصہ قرار دے چکی ہے تو دوسری طرف اس کے ایک حالیہ اجلاس میں امریکی صدر کے فیصلے کو نہ صرف مسترد کیا گیا ہے بلکہ اس کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی گئی ہے۔ قاہرہ میں ہونے والے بائیس رکنی عرب لیگ کے وزرا خارجہ کے ایک ہنگامی اجلاس میں بھی نہ صرف امریکی صدر کے اعلان کو مشرق وسطیٰ کے امن کو تہہ وبالا کرنے کے مماثل قرار دیا گیا ہے بلکہ ایسے کسی فیصلے کی مزاحمت کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ اسی تسلسل میں ترکی کے صدر طیب رجب اردوان کی اپیل پر استنبول میں او آئی سی کا سربراہ اجلاس بھی اس عزم کے ساتھ منعقد ہوا ہے کہ امریکی صدر کا یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا فلسطینیوں اور عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔
عرب لیگ اور او آئی سی جیسی عالم اسلام کی دو بڑی تنظیموں کی جانب امریکی صدر کے بیان پر جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ بظاہر بروقت بھی ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے لیکن ان دونوں اہم فورموں کی جانب سے اس انتہائی اہم اور حساس مسئلے جسے اگر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دین وایمان کا حصہ قرار دیا جائے تو شاید بے جا نہیں ہوگا کے حوالے سے جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ الفاظ اور قراردادوں کے گورکھ دھندے کی حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے لیکن امریکی صدر نے جس رعونت اور طاقت کے نشے سے سرشار ہو کر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات نیز سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اسلام دشمنی پرمبنی جو رویہ اپنایا ہے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ عالم اسلام بالخصوص اور آزاد دنیا بالعموم صدر ٹرمپ کے اس شر انگیز بیان اور ان کے عزائم کے خلاف ایک واضح اور دوٹوک موقف اپناتے لیکن عالم اسلام کی قیادت اس نازک موقعے پر بھی ہمیں ایک بار پھر مصلحت کا شکار نظر آتی ہے۔ عالم عرب کی قیادت کے علمبردار اور دعوے دار دو ممالک سعودی عرب اور مصر جن کے امریکا کے ساتھ خصوصی سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات ہیں اور جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے تمام بحرانوں میں ہمیشہ امریکی اتحادی کا کردار ادا کیا ہے سے بجا طور پر یہ توقع کی جانی چاہیے کہ یہ دونوں ممالک امریکا اور اس کے صدر پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے اسے یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ امریکا کو عالم اسلام اور عالم عرب کے اس حساس ترین مسئلے کو اتنا آسان نہیں سمجھنا چاہیے اور چوں کہ ایسے کسی بھی ممکنہ فیصلے سے مشرق وسطیٰ نہ صرف ایک نئے سنگین بحران سے دوچار ہو سکتا ہے بلکہ یہ آگ بڑھک کر عالمی امن کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر سکتی ہے، لہٰذا امریکی صدر کو اس آگ سے نہیں کھیلنا چاہیے۔ اسی طرح سلامتی کونسل کے چار دیگر مستقل ممبران برطانیہ، روس، چین اور فرانس پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امریکا کو کوئی بھی ایسا انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں جومشرق وسطیٰ میں کسی نئے بحران کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکی صدر کے حالیہ بیان کے خلاف اگر ایک طرف یورپی ممالک کی جانب سے اعتراض اور تنقید سامنے آئی ہے تو دوسری جانب خود امریکا کے اندر بھی اس فیصلے اور اعلان پر شدید تنقید کے ساتھ ساتھ ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس بحث کے تناظر میں حکمت اورحالات کا تقاضا یہ ہے کہ اسرائیل کو بھی خوش فہمی کا شکار ہونے کے بجائے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے امریکی صدر کے بیان کو نہ تو سنجیدگی سے لینا چاہیے اورنہ ہی اس ضمن میں کسی عجلت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ایسا کوئی بھی انتہائی قدم مشرق وسطیٰ کے قلب میں ایک نیا سنگین بحران پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے جس سے کمزور فریق ہونے کے ناتے زیادہ نقصان تو یقیناًفلسطینیوں اور عالم عرب کا ہوگا لیکن اسرائیل کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے اس لگنے والی آگ سے وہ خود اپنے وجود کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکے گا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کا متذکرہ متنازع بیان سامنے آتے ہی اگر ایک طرف فلسطینی عوام حماس کی قیادت میں ایک نئی انتفاضہ کا آغاز کر چکے ہیں جس میں اب تک نصف درجن بے گناہ فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں تو دوسری طرف اسلامی دنیا میں بھی عوامی سطح پر صدر ٹرمپ کے بیان اور فلسطین میں جاری اسرائیلی ظلم و درندگی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شرو ع ہو چکا ہے جوکسی بھی وقت آتش فشاں بن کر اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، لہٰذا اس فیصلے کا واپس لیا جانا جہاں عالمی امن کے لیے ضروری ہے وہاں یہ خود امریکا اور اس کے لے پالک اسرائیل کے بھی مفاد میں ہے۔