میڈیکل کالجزمیں جدید ماڈیولر سسٹم کا نفاذ

252

عالمگیر آفریدی

شعبہ صحت بالخصوص طبی درس وتدریس سے تعلق اور دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ خبر یقیناًدلچسپی اور توجہ کی حامل ہوگی کہ خیبر پختونخوا کی پہلی اور واحد طبی جامعہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور نے ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن کی گائیڈ لائنز اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی روشنی میں صوبے کے پانچ میڈیکل کالجوں خیبر میڈیکل کالج پشاور، خیبر گرلز میڈیکل کالج پشاور، کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کوہاٹ، رحمن میڈیکل کالج پشاور اور نارتھ ویسٹ اسکول آف میڈیسن پشاور میں پائلٹ بنیادوں پر جدید ماڈیولر کیریکولم سسٹم کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس جدید نصاب اور طریقہ تدریس کے نفاذ کا فیصلہ یونیورسٹی کے حال ہی میں تعینات ہونے والے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کی زیر صدارت کے ایم یو کے ساتھ الحاق شدہ صوبے کے مختلف میڈیکل کالجوں کے سربراہان کے ساتھ ہونے والے کئی اجلاسوں میں ہونے والی تفصیلی بحث و تمیحص کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا میں طبی تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جا رہی تھی اور اس ضمن میں پی ایم ڈی سی اسلام آباد کی جانب سے پہلے ہی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے اصلاحات کے ایک جامع اور وسیع ایجنڈے پر کام ہورہا ہے۔ یہ بات بھی محتاج بیان نہیں ہے کہ پاکستان کے اکثر میڈیکل کالجوں میں اب بھی پچاس سالہ بلکہ شاید اس سے بھی پرانا اور فرسودہ طبی نصاب پرانے طریقہ تدریس کے ذریعے پڑھایا جا رہا ہے جس سے نہ صرف معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں بلکہ ان فرسودہ اور روایتی طریقوں کے باعث شعبہ صحت میں مختلف نت نئے امراض کی صورت میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں بھی کئی پیچیدگیاں اور تکنیکی رکاوٹیں آڑے آ رہی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کے ایم یو نے صوبے کے پانچ میڈیکل کالجوں جدید ماڈیولر کریکولم سسٹم کے نفاذ کا حالیہ قدم ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات اور گائیڈ لائنز کی روشنی میں اٹھایا ہے جنہوں نے پاکستان سمیت تمام ترقی پزیر ممالک کو 2023 تک اپنے طبی نصاب اور طریقہ ہائے تدریس میں اصلاحات کے ذریعے ماڈیولر نصاب کا نظام متعارف کرانے کی نہ صرف ڈیڈ لائن دے رکھی ہے بلکہ یہ واضح تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اگر ان ممالک نے ترقی یافتہ ممالک میں رائج اس جدید نظام کو اپنے ہاں 2023 تک متعارف نہیں کرایا تو ان ممالک کے میڈیکل گریجویٹس کو ترقی یافتہ ممالک میں نہ تو اعلیٰ طبی تعلیم اور تحقیق کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی ان ترقی پزیر ممالک کے گریجویٹس ترقی یافتہ ممالک میں طبی پریکٹس کی سہولت سے استفادہ کر سکیں گے۔
کے ایم یو کے وائس چانسلر نے متذکرہ ماڈیولرسسٹم کے بارے میں بتایا کہ اس نظام کے نفاذ کا مقصد پرانے اور روایتی طبی نصاب اور طریقہ ہائے تدریس کے بجائے طلبہ وطالبات کو جدید رجحانات اور طریقوں کے مطابق پڑھانا اور انہیں عالمی طبی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جدید نظام کے نفاذ پر بہت عرصے سے کام ہورہا تھا لیکن بعض تکنیکی وجوہ اور خاص کر بعض اداروں اور وہاں کام کرنے والے بعض پرانی روایات اور خیالات کے حامل اساتذہ بھی چوں کہ اس نئے نظام کے نفاذ کے حامی نہیں تھے اس لیے یہ کام جو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا اس کے نفاذ میں غیر ضروری تاخیر کی گئی لیکن ہم نے اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے اور پچھلے دوماہ کے دوران اس سلسلے میں مسلسل کئی اجلاسوں کے انعقاد کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کے بعد اس کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے جس کے جلد ہی بہت حوصلہ افزا نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔
اس سسٹم کے بارے میں یہ بھی معلوم ہو اہے کہ چوں کہ یہ طبی تعلیم یعنی ایم بی بی ایس کے پانچ سالہ پروگرام پر محیط ہوگا اس لیے 2023کی حتمی ڈیڈ لائن تک صوبے کے تمام میڈیکل گریجویٹس کو اس سسٹم کے تحت پڑھانے کے لیے اس کا نفاذ چوں کہ 2018کے اگلے سال شروع ہونے والے سیشن سے ضروری ہے لہٰذا اس کا پائلٹ بنیادوں پر 2017کے سیشن سے آغاز ضروری تھا۔ لہٰذااسی سوچ کے تحت کے ایم یو نے رواں سیشن سے مذکورہ بالا پانچ میڈیکل کالجز میں یہ جدید ماڈیولر سسٹم نافذ کردیا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوگی۔