محمد اکرم ہزاروی
ایک وقت تھا کہ ہمارے ہیروز ہمارے پیارے آقا ومولا نبی کریم ؐ ہوا کرتے تھے۔ اس وقت لوگوں کی آئیڈیل شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق ؒ سیدنا عمر فارو ق ؒ سیدنا عثمان غنی ؒ سیدنا علی ؒ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح، خا لدبن ولید، (رضو ان اللہ علیہم اجمعین)، مشہور تابعی محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، موسی بن نصیر، عبد العزیز بن موسی، سلطان نورالدین زنگی، سراج الدولہ، شیر میسور ٹیپو سلطان، سلطان محمود غزنوی، بہادر شاہ ظفر اور اورنگزیب عالمگیر ؒ ہوا کرتے تھے۔ مسلمان ان پاکیزہ ہستیوں سے جذباتی حد تک لگاؤ رکھتے تھے۔ مگر آج ہم نے ماڈریٹ کا نام د ے کر اپنے شاندار ماضی سے منہ موڑ لیا ہے۔ غیروں کے طرز زندگی پر چلنے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ یورپ کے طرز زندگی کی نقالی کو ترقی کا نام گردانا جاتا ہے۔
مادر پدر آزادی اور روشن خیالی میں ہم اس حد تک چلے گئے ہیں کہ آج ہم اپنا آئیڈیل بھارتی اور مغربی اداکاروں اور کھلاڑیوں کو بنالیا ہے۔ اگر نئی نسل کا مشاہدہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ وہ بھارتی اداکاروں کی نجی زندگی سے لے کر ازدواجی زندگی تک۔ شادی سے لے کر طلاق تک۔ معاشقے سے لے کر شادی کے بندھن تک۔ ایسے بات کریں گے جیسے وہ ان کی ’’خالا‘‘اور ’’تائے‘‘ کے بیٹے ہوں۔
آپ رول ماڈل انہیں بنائیں گے جو سیاست تو پاکستان میں کرتے ہیں لیکن ان کی وفاداریاں واشنگٹن ولندن، دبئی اور پیرس سے وابستہ ہوتی ہیں۔ جو کھاتے تو پاکستان کا مگر ان کی اولاد، جائداد اور بینک بیلنس لندن، دبئی، کینڈا اور سوئزر لینڈ میں ہوتا ہے۔ جو ملکہ الزبتھ اور ویٹی کن سٹی سے وفاداری کی قسم اور جان کی حفاظت مانگتے ہیں۔ جن کا دین دھرم اور سب کچھ غیر ملکی آقا ہوتے ہیں۔ جن کی ساری زندگی اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹنے ہی میں گزر جاتی ہے۔
جی ہاں! تو آپ اپنا آئیڈیل انہیں بنائیں گے جھوٹ بولنا جن کی عادت ہے اور اقربا پروری، ہیر پھیر، الزام تراشی، لوٹ کھسوٹ اور اپنے اثر و سوخ کے بل بوتے پر مختلف پارٹیوں کے لوگوں پر جھوٹے مقدمات درج کروا دینا جن کا مشغلہ ہے۔ نبی کریم ؐ کی شان اور شعائرِاسلام پر زبان طرازی جن کا وتیرہ ہے۔ دینی مدارس، علماء اور طلبہ پر لعن طعن اور گالی دینا جو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ آپ اپنا آئیڈیل انہیں بنائیں گے۔ اسلام اور دو قومی نظریہ سے جو الجرک ہیں۔ بات ذرا دور چلی گئی، میں یہ کہہ رہا تھا کہ آج ہم نے فلمی ایکٹر ز، سیاست دانوں اور کرکٹرز کو اپنا آئیڈیل بنا لیا ہے۔
نبی کریم ؐ کی ذات بابرکت ہمارے لیے ایک کامل نمونہ ہے۔ آپ ؐکی ذات طیبہ کا ہر فعل اور قول وعمل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ نبی اکرم ؐ کی سیرت کا مطالعہ کر کے کئی نامی گرامی مستشریقین حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ آپ ؐ کا اسوہ حسنہ اور آ پ کی تعلیمات کا مطالعہ کر کے مشہور مستشرق ’’مائیکل ہارٹ‘‘ اس نتیجے پر پہنچا کہ سو عظیم شخصیات کی درجہ بندی میں سب سے پہلے آپ کی ہی ذات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے سو عظیم شخصیا ت کی درجہ بندی میں اول نمبر پر آپ ؐ کی ذات مبارکہ ہی کو رکھا۔
اس میں تو کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ نبی کریم ؐ اور آپ کے اصحابِ صفہ کی ذات بابرکت ایک آئیڈیل ہے۔ آپ ؐ کے اسوہ حسنہ پر چل کر آج ان گنت مسائل میں الجھی ہوئی امت مسلمہ سر خرو ہو سکتی ہے۔ اگر وہ اپنا بھولا ہوا سبق یاد کر لے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ آج ہمیں اپنے شاندار ماضی سے رشتہ جوڑنا ہوگا۔ نبی پاک ؐ کی ہرہر سنت کو عام کرنے کا مشن اور فریضہ اگر ہم نے اپنا لیا تو ان شاء اللہ دنیا میں تو فائدہ ہے لیکن آخرت بھی ان شاء اللہ اچھی ہوگی۔
بات ہورہی تھی رول ماڈل کی تو آج ہم سرکار دو جہاں ؐ کو اپنی ’’آئیڈیل پرسنالٹی‘‘ بنا سکتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو آپ ؐ کی ذات مبارکہ ہی کو دنیا اپنا آئیڈیل بنا سکتی ہے۔ آپ ؐ کی ذات بابرکت کو اگر بطور جرنیل، خارجہ پالیسی۔ داخلہ پالیسی، امارت، شورائیت (پالیمنٹ) بنیادی حقوق انسانیت، ذمیوں کے حقوق، آزادی اظہارِ رائے دیکھا جائے تو وہ تمام اوصاف و کمالات آپ ؐ کی ذات میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ ؐ نے مسلمانوں کو جانوروں، معذوروں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں، غیر مسلموں سے تعلقات، والدین اور پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بھی تعلیم فرمائی ہے، آپ ؐ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کو ایک آئیڈیل پرسنالٹی بنایا جائے۔ آج ہم نبی محترم ؐ کو اپنا رول ماڈل بنا سکتے ہیں۔