دونوں کی بات درست ہوسکتی ہے

348

شاہد خاقان عباسی بہت ہی نفیس اور خاموش طبع رکن قومی اسمبلی ہیں‘ وزیر اعظم بنے ہوئے انہیں پانچ ماہ ہونے والے ہیں ابھی تک وہ وزیر اعظم نہیں لگتے‘ ان کے والد خاقان عباسی بھی بہت ہی خاموش طبع تھے اوجھڑی کیمپ کا واقعہ ہوا تو اسلام آباد میں خیبر پلازہ بلیو ایریا کے قریب ایک اُڑتا ہوا میزائل ان کی گردن پر لگا جس سے ان کی موت واقع ہوئی اپنے والد کے انتقال کے بعد ضمنی انتخاب میں شاہد خاقان عباسی اسمبلی میں آئے اب تک تین‘ چار بار اسمبلی میں آچکے ہیں لیکن اپنے مزاج کے اعتبار سے وہ سیاست دان دکھائی نہیں دیتے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی بار وہ بولے ہیں اور ایسا بولے ہیں کہ تڑکہ ہی لگا دیا ہے۔ کہتے ہیں حکومت اپنی مدت پوری کرے گی جون میں عبوری حکومت بنے گی جو مقررہ وقت کے اندر انتخابات کرائے گی۔ انہوں نے اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا ذاتی خیال قرار دیا جنہیں خوف لاحق ہے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری نہیں کرے گی ان کی چھٹی حِس کہتی ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے؟
اگرچہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی لیکن نواز شریف نے سردار ایاز صادق کے بیان کی تائید کی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے لیکن نواز شریف کے ساتھی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کا بھی خیال ہے کہ انتخابات وقتِ مقررہ پر ہوں گے گویا وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کے موقف میں واضح تضاد کیوں ہے؟ اور نواز شریف اسپیکر کے موقف کے ہامی کیوں ہیں اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ وزیر اعظم عباسی اور نواز شریف ایک پیج پر نہیں ہیں؟ یا اسپیکر نے سب کچھ بتادیا ہے اور وزیر اعظم کچھ نہیں بتا رہے یقینی بات ہے کہ اسپیکر کے پاس جو اطلاعات ہیں اور انہوں نے اسی کے مطابق رائے قائم کی ہے اور وزیراعظم کے پاس چوں کہ کُلی اطلاعات ہوتی ہیں اس لیے ان کی رائے اور اطلاع درست ہوگی۔
اس اسمبلی کی مدت 31 مئی کو ختم ہورہی ہے، ساڑھے پانچ ماہ کے بعد یہ اسمبلی اپنی مدت مکمل ہونے پر خود بخود تحلیل ہوجائے گی، انتخابات کے لیے نگران حکومت تشکیل پائے گی وزیراعظم کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ جب چاہیں صدرِ مملکت کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دے دیں اگر ان کے مشورے پر صدر 48 گھنٹے کے اندر اندر اسمبلی توڑنے کا حکم جاری نہیں کرتے تو اس مدت کے خاتمے کے بعد اسمبلی خود بخود ختم ہوجائے گی، وزیراعظم کو آئین نے یہ اختیار دے رکھا ہے اور اسمبلی توڑنے کا مشورہ دینے کے لیے وزیراعظم کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ ان وجوہ پر بھی روشنی ڈالیں جن کے تحت وہ اسمبلی توڑنے کا صدر کو مشورہ دے رہے ہیں یہ وزیراعظم کا یہ صوابدیدی اختیار ہے۔
ہمارے ملک میں اسمبلیاں کوئی سات بار توڑی جاچکی ہیں اور ہر بار نتیجہ ایک ہی نکلا تاہم وجوہ مختلف تھیں اب صدر کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ اسمبلی توڑ سکیں تو پھر سوال یہ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ خوف کیوں ہے کہ شاید اسمبلی مدت پوری نہ کرے، ان کے خدشات کی بنیاد وہ صورت حال ہوسکتی ہے اپوزیشن جماعتیں حکومت کو پارلیمنٹ میں زچ کررہی ہیں مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی بھی مسئلہ بنے ہوئے ہیں کسی نے کہا کہ 60 ارکان کا ان سے رابطہ ہے، کسی نے ان کی تعداد ستر بتائی، کوئی یہ تعداد بڑھا کر اسی تک لے گیا ہے فیصل آباد کی کانفرنس میں دو استعفے پیر صاحب سیال شریف حمید الدین کے حوالے کیے گئے ہیں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان 188 سے کم ہوکر 186 ہوجائیں گے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعداد اسمبلی چلانے کے لیے کافی نہیں ہے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وزراء اور پارلیمانی سیکرٹریوں سمیت ارکان اسمبلی ایوان میں نہیں آتے، کورم ٹوٹ جاتا ہے اور ہاؤس بزنس جاری نہیں رکھا جاتا، لیکن اس وقت اصل سوال ان خدشات کا ہے جن کی بنیاد پر اسپیکر کو یہ کہنا پڑا کہ اسمبلی شاید مدت پوری نہ کرے، ہمارے خیال میں اب یہ بات زیادہ اہم نہیں رہ گئی کیوں کہ اگر آج بعض ارکان استعفے دیتے ہیں تو جو ضمنی انتخاب ہوگا اس پر منتخب ہونے والا رکن زیادہ سے زیادہ ساڑھے پانچ ماہ کے لیے منتخب ہوگا اس لیے ضمنی الیکشن میں دلچسپی بھی کم ہوجائے گی چوں کہ اسمبلی کے خاتمے کی تلوار الگ سے لٹکی ہوئی ہے اس لیے حصہ لینے والے لوگ یہ بھی سوچیں گے کہ دو تین ماہ (یا اس سے بھی کم) کے لیے منتخب ہوکر وہ کیا کریں گے، اس لیے اسپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم سے اتفاق کرلیں کہ اسمبلی مدت پوری کرے گی اور وزیر اعظم بھی اسپیکر سے اتفاق کرلیں کہ حالات مشکل ہیں۔