شاید مجھے نکال کے……!

427

متین
شاعر نے کہا ہے کہ
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہو آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
ممکن ہے جاوید ہاشمی پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں میاں نواز شریف سے بغل گیر ہوتے ہوئے دل ہی دل میں یہ شعر گنگنارہے ہوں لیکن سچی بات ہے یہ شعر ان پر فٹ نہیں بیٹھتا۔ وہ نکالے نہیں گئے تھے خود نکلے تھے۔ جب وہ نکلنے کا ارادہ باندھ رہے تھے تو مسلم لیگ (ن) کے سب لیڈروں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ یہ کام نہ کریں۔ میاں صاحب نے بھی ان کی خوشامد کی تھی کہ وہ اپنے ارادے سے باز آجائیں، حتیٰ کہ بیگم کلثوم نواز بھی انہیں منانے ان کے گھر گئی تھیں لیکن جاوید ہاشمی پر تو عمران خان کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، اس لیے انہوں نے کسی کی بھی نہ سُنی اور اپنی ضد پر قائم رہے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد ان کی حیثیت نمبر ٹو کی ہوگی۔ پھر عمران خان کے دھرنے میں امپائر کی اُنگلی اُٹھنے کی دیر ہے، اقتدار اس کے قدموں میں ڈھیر ہوگا اور وہ اس میں سے اپنا حصہ وصول کرسکیں گے۔ چناں چہ جاوید ہاشمی اپنی آنکھوں میں سنہری خواب سجائے ہوئے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان خوابوں میں مخل ہو۔ وہ بڑی آن بان سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے، عمران خان نے انہیں بہت عزت دی، پارٹی کا وائس چیئرمین بنایا، انہیں اپنے بعد نمبر ٹو کا درجہ دیا۔ ان کے ساتھ راز کی باتیں شیئر کیں، انہیں بتایا کہ اقتدار فوج کے تعاون ہی سے انہیں مل سکتا ہے۔ اس کے لیے وہ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے اور امپائر کی انگلی اُٹھنے کا انتظار کریں گے۔ جاوید ہاشمی خود بھی دھرنے میں شریک ہوئے اور دھرنے والوں سے خطاب بھی کیا۔ پھر اچانک ان کا ناریل چٹخ گیا اور وہ عمران خان پر فوج سے ساز باز کا الزام لگا کر تحریک انصاف سے الگ ہوگئے۔ انہوں نے عمران خان کے خلاف جو کچھ کہا اور مسلسل کہتے رہے، کیا انہیں یہ سب کچھ پہلے پتا نہ تھا۔ جاوید ہاشمی اتنے بھولے نہیں ہیں کہ وہ حالات و واقعات سے بالکل بے خبر تھے، وہ سب کچھ پہلے سے جانتے تھے لیکن اقتدار کی کشش انہیں تحریک انصاف میں کھینچ کر لے گئی تھی، ممکن ہے کسی ایجنسی نے انہیں سبز باغ دکھایا ہو جیسا کہ شاہ محمود قریشی کو دکھایا تھا۔ جنہوں نے پیپلز پارٹی اور وزارت خارجہ سے نکلنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو جوائن کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور میاں نواز شریف سے ان کی ملاقات بھی ہوچکی تھی لیکن ایجنسیوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال کر انہیں تحریک انصاف جوائن کرنے پر مجبور کردیا۔ ممکن ہے کہ یہی صورت حال جاوید ہاشمی صاحب کے ساتھ بھی پیش آئی ہو اور وہ اپنا دفاع نہ کرسکے ہوں۔ بہر کیف وہ تحریک انصاف میں نہ ٹِک سکے اور اس پر تبّرا کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ آدمی ہیں سمجھدار، انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ بیل جلد منڈھے نہ چڑھ سکے گی اور انہیں طویل انتظار کھینچنا پڑے گا جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے تھے لیکن ان کی اصل ٹریجڈی یہ تھی کہ وہ تحریک انصاف کی محبت میں قومی اسمبلی کی سیٹ بھی کھو بیٹھے تھے اور اب ازسر نو الیکشن لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چناں چہ جب ان کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخاب کا اعلان ہوا تو انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کردیا، اس سے پہلے انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو بالواسطہ طور پر رام کرنے کی پوری کوشش کی۔ اعلان کیا کہ میں پیدائشی مسلم لیگی ہوں، مسلم لیگ میرے خون میں شامل ہے، میں نواز شریف کو اپنا قائد مانتا ہوں، وغیرہ وغیرہ لیکن افسوس
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
جاوید ہاشمی کی ضمنی انتخاب میں (ن) لیگ کی حمایت حاصل کرنے کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور میاں صاحب کے اشارے پر ملتان کی مسلم لیگ نے ایک اور آزاد امیدوار کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب کہ ان کے مقابلے پر تحریک انصاف نے اپنا امیدوار کھڑا کر رکھا تھا۔ جاوید ہاشمی بُری طرح ہار گئے اور (ن) لیگ نے سکھ کا سانس لیا۔ وہ (ن) لیگ سے یہ گلہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہ تھے کہ ’’مجھے کیوں ہروایا‘‘ البتہ جب میاں نواز شریف کو پاناما لیکس کے ناگ نے ڈسا اور وہ عدالت عظمیٰ کے خلاف ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کررہے تھے تو جاوید ہاشمی نے ضرور ان کی سیاسی حمایت کی اور عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ آج بھی یہ کہنے میں باک نہیں محسوس کرتے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں جوڈیشل مارشل لا نافذ ہے۔ لیکن میاں نواز شریف کے ساتھ تمام تر سیاسی یک جہتی کے باوجود جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ برادرم میاں منیر نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ جاوید ہاشمی کی میاں صاحب سے ملاقات پنجاب ہاؤس کی بالکونی میں ہوئی جہاں اور بہت سے لوگ جمع تھے، اگر بند کمرے میں ملاقات ہوتی تو بہت سی باتیں ہوسکتی تھیں لیکن میاں صاحب لوگوں میں گھرے تھے وہاں ان سے کیا بات ہوتی۔ اب جاوید ہاشمی نے ایک اخباری تحریر میں خود اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میاں صاحب سے ملاقات ضرور ہوئی لیکن پارٹی میں شمولیت پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ دراصل جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت بیگم کلثوم نواز کی رضا مندی اور اجازت سے مشروط ہے۔ جب ہاشمی صاحب پارٹی چھوڑ رہے تھے تو بیگم صاحبہ انہیں منانے ان کے گھر گئی تھیں لیکن وہ نہ مانے اور بے رُخی اختیار کی۔ اب بیگم صاحبہ کی عزت نفس کا مسئلہ ہے۔ دیکھیے وہ مانتی ہیں یا نہیں۔ خیال یہی ہے کہ وہ مان جائیں گی کیوں کہ ان کے شوہر پر بُرا وقت آیا ہوا ہے اور انہیں حامی سیاستدانوں کی ضرورت ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ جاوید ہاشمی کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا وہ بس پارٹی کے طبلہ ونگ میں شامل رہیں گے۔
رہی یہ بات کہ ’’شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ‘‘ تو میاں نواز شریف کے مزاج میں پچھتانا شامل نہیں ہے، وہ بڑی سے بڑی غلطی کرکے بھی کبھی نہیں پچھتائے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو بھونڈے طریقے سے برطرف کرکے خود کو ہتھکڑی لگوالی تھی لیکن پچھتائے پھر بھی نہیں تھے۔ آدمی پچھتاتا اُس وقت ہے جب اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور اپنے کیے پر نادم ہو، میاں صاحب کا یہ خانہ خالی ہے وہ آج کل غلطی پر غلطی کیے جارہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان کے دل میں کوئی پچھتاوا ہو، البتہ جاوید ہاشمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنی غلطی پر پچھتا رہے ہیں۔