لوٹنے والے اور لٹنے والے

460

بابا الف کے قلم سے
مختار مسعود کی لوح ایام سے ایک اقتباس:
میں وہاں موجود نہ تھا اور ہوتا بھی کیسے کیوں کہ یہ بات ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ ایران کے جنوب سے ایک زیر فرمان اُٹھا اور فرمانروا کو شکست دے کر بادشاہ بن گیا۔ حوصلہ مند شخص تھا۔ محض ایک ملک کی بادشاہت پر کیوں کر قناعت کرتا۔ شہروں شہروں اپنا جھنڈا گاڑتا ہوا اور ملکوں ملکوں دوسروں کے جھنڈے سرنگوں کرتا ہوا دریا ئے فرات کے کنارے بابل تک جا پہنچا جو اس زمانے کا سب سے بڑا شہر تھا۔ دیوتاؤں کا شہر۔ بہت بڑی سلطنت کا دارالسلطنت۔ تین طرف تہہ بہ تہہ فصیل۔ چوتھی جانب فرات کا دریا۔ قلعہ بندی مکمل۔ بظاہر یہ شہر ناقابل تسخیر نظر آتا تھا۔ مگر ایک کسر تھی۔ وہ یہ کہ لوگوں میں اتحاد اور اتفاق نہ تھا۔ آپس میں ان بن۔ حکومت سے بے زار۔ بادشاہ سے ناراض۔ ملک اور مستقبل سے لاتعلق۔۔۔ بابل پر چڑ ھائی کرنے والے کا رستہ یہ پراگندہ لوگ کیسے روکتے۔ اگر ذرا سی دیر کے لیے اسے کسی نے روکا تو وہ دریائے فرات تھا۔ حملہ آور نے حکم دیا کہ دریا کوراستے سے ہٹا دیا جائے۔ حکم بجا لانے والوں نے نہریں کھودیں اور دریا کا رخ موڑ دیا۔
پاکستان کی دگرگوں صورت دیکھیں۔ حملہ آوروں کو باہر سے نہریں کھودنے کی ضرورت نہیں۔ اندرون ملک نہریں کھود کر، سرنگیں نکال کر دشمنوں کے داخل ہونے کے راستے ہم خود کشادہ کررہے ہیں۔ موجودہ سماجی نظام دو طبقوں میں منقسم ہے۔ ایک لوٹنے والے دوسرے لٹنے والے۔ سوال یہ ہے بیرونی حملہ آوروں کے راستے کون کشادہ کررہا ہے۔ لٹنے والے یا لوٹنے والے۔ لٹنے والے تو فریب مسلسل کا شکار، اپنی تقدیر پر راضی ہیں۔ انہیں لوٹا جارہا ہے اور دھڑلے سے لوٹا جارہا ہے لیکن ستم یہ ہے کہ ان میں احتجاج کی سکت بھی نہیں رہی۔ وہ نواز شریف کے جلسوں میں بھی میدان بھر دیتے ہیں۔ جوش خروش سے نعرے لگاتے ہیں۔ پارٹی پرچم لہراتے ہیں۔ عوام کی تائید دیکھیں توفرشتوں کے لکھے پر مجھے کیوں نکالاکی گردان کرتے نواز شریف قتیل شفائی محسوس ہوتے ہیں۔ عمران خان کے میوزیکل جلسوں میں بھی لٹنے والوں کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں۔ گالوں پر، گلوں میں، ہاتھوں میں پی ٹی آئی کے سرخ اور سبزرنگ، مفلر اور جھنڈے۔ عمران خان خود کو وزیر اعظم کے عہدے سے بال برابر دور محسوس کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نصف صدی ملک اور سندھ کو پیچھے لے جانے کا جشن منائے تو بھی لٹنے والوں کے یہی طور ہوتے ہیں۔ سرخ، کالے اور سبز رنگ کے لباس میں خواتین۔ جیالوں کی زرداری سے بھی وہی وابستگی، وہی والہانہ پن جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کے لیے مخصوص تھا۔ انہیں پتا ہی نہیں کہ بھٹو خاندان مٹ گیا۔ پیپلزپارٹی اب آصف علی زرداری، بلاول زرداری اور فریال تالپور کی ملکیت ہے۔ تینوں سیکولر جماعتوں کو تن من سے سپورٹ کرنے والے عوام مذہبی جماعتوں کو بھی مایوس نہیں کرتے۔ طاہر القادری کینیڈا سے پورے ملک کو ماموں بنانے کے لیے تشریف لائیں تو ان کے جلسوں کے شرکاء کی تعداد دیکھ کر آنکھیں پھٹنے لگتی ہیں۔ وہ عالِم اور ان سیکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں جو انہوں نے خود لکھی ہیں۔ ان کی عالمانہ شان اور گرج چمک کے آگے کس میں دم کہ انکار کرسکے کہ ان کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد پچیس پچاس لاکھ سے کم نہیں۔ جمعیت علماء اسلام کا جس شہر میں جلسہ ہو اس دن دینی مدارس طلبہ سے خالی ہوجاتے ہیں۔ دینی مدارس ان کی ان شور کمپنیاں ہیں۔ مولانا مفتی محمود نے سرحد میں قلیل مدت کی وزارت علیا میں حکومت کے جو اعلیٰ مظاہر پیش کیے تھے جو بلاشبہ جمعیت کا قابل فخر اثاثہ ہیں لگتا ہے پورے ملک میں اس کا احیا ہونے جارہا ہے۔ اور پھر مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت اور موجودہ سسٹم سے آگہی۔ عوام جلسوں میں جتنا زیادہ ہوں، کم ہے۔ رہی اپنی سینیٹر سراج الحق کی جماعت اسلامی تو ان کی کج کلہی کے باوجود قادر مطلق کی رضا سے عوام کی محبت آج بھی جماعت اسلامی کے لیے موجود ہے۔ کاش جماعت اسلامی ایک ایسی مال گاڑی ہوتی جس کے آگے اور پیچھے دونوں طرف انجن ہوتے اور یہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے پلیٹ فارم پر ہی کھڑی رہتی تو ہزار انتخابی پسپائیاں اس پر سے قربان کی جاسکتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی جماعتیں اپنی تخلیقی صلاحیتیں کھو بیٹھی ہیں۔ تحریک لبیک کی نمود جس کا اظہار ہے۔ ضعف بصارت، بصیرت اور سماعت کے شکار لوگوں پر رشک آنے لگتا ہے۔ لیکن اس کا کیا جائے کہ ان کا دھرنا بھی لٹنے والوں کی شرکت کے اعتبار سے اتنا ہی پر اثر تھا۔ یقین ہونے لگتا ہے کہ پاکستان میں صرف گالیوں کے بل پر ہی دھرنے کے سہولت کاروں سے بارہ کے بارہ مطالبے تسلیم کرائے جاسکتے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لٹنے والوں سے ملک کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ تو لوٹنے والوں کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ خیال رہے لوٹنے والوں سے صرف سیاسی اور دینی جماعتیں مراد نہیں ہیں۔ وہ تو لوٹنے والوں کا محض ایک حصہ ہیں۔ لوٹنے والوں میں آجر، سرمایہ دار، ظالم زمیندار، وڈیرے، خان اور سردار بھی شامل ہیں اور بیورو کریسی، دفتری بابو اور شہسواروں سے خوشگوار تعلقات رکھنے والی عزت مآب عدلیہ اور وہ فاتحین بھی جنہوں نے اپنے ہی وطن کو روند ڈالا۔ لوٹنے والوں کے اس برگزیدہ طبقے نے قوم کو بھیانک غربت، خستہ حالی اور سسک سسک کر جینے والے شب وروز دیے ہیں جن سے تھک کر ہارجانے والوں نے اب سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کے دل ودماغ مردہ ہوگئے ہیں۔
حاصل یہ کہ لٹنے والوں میں تو اتنی طاقت نہیں کہ بیرونی حملہ آوروں کو راستہ دینے کے لیے اندر سے سرنگیں کودیں۔ وہ تو جب بھی وطن کی مٹی آواز دیتی ہے اس کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پھر بربادی کے یہ راستے کون
کشادہ کررہا ہے؟ جواب ہے لوٹنے والے۔ اس جواب سے یہ سوال جنم لیتا ہے وہ ایسا کیوں کررہے ہیں۔ ان کا مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوٹنے والے باہم دست وگریباں ہیں۔ وہ جمہوریت جو چند سیاسی خاندانوں اور جماعتوں کے محور پر گھوم رہی ہے اس کے داعی ایک دوسرے کو جیلوں میں سڑتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ترقی دشمن سیاست کررہے ہیں۔ ہمارے شہسواروں اور عدلیہ نے ایک ایسے نظام میں جو بجائے خود کرپشن کو فروغ دیتا ہے کرپشن کے الزام میں ایک وزیراعظم کو فارغ تو کردیا لیکن اس سے ملک میں استحکام آیا یا انتشار۔ ملک رک گیا ہے یا آگے کی طرف جارہا ہے۔ اس کی جواب دہی کس کی ذمے داری ہے۔ نواز شریف کی حکومت تو آج بھی قائم ہے۔ خواہشوں کے باوجود بکھرنے سے محفوظ۔ اس کی کیا ضمانت کہ اس کرپٹ نظام سے جنم لینے والی آئندہ حکومت کرپٹ نہیں ہوگی۔ اس انجام سے دوچار نہیں کی جائے گی۔ کیا عدلیہ اور فوج میں کرپشن نہیں پھر ان کے احتساب کے آثار دور دور مفقود کیوں۔ وہ سویلین کا احتساب کرسکتے ہیں۔ سویلین حکومت ان کا احتساب کیوں نہیں کرسکتی۔ ملک میں وہ افراتفری ہے کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ فوج سیاست دانوں کے خلاف اپنی خواہشات کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد سیاست دان بھی اب کھل کر فوج کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ عدالتوں میں بھی اب فوج کا کردار زیربحث آرہا ہے۔ عزت مآب ججوں کو سیاست، ٹی وی اسکرینوں اور اخبارات کی سرخیاں بننے کے چسکے سے کب فرصت ملے گی کب وہ عوام کی داد رسی کی طرف مائل ہوں گے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب۔ فوج اور عدلیہ سب مل کر سویلین حکومتوں کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاست دان تو بدنام تھے ہی آج پاکستان میں فوج اور عدلیہ بھی نیک نام نہیں رہی۔ کوئی ادارہ مقدس نہیں رہا۔ سب پاکستان کی سیاسی روحانی اور مادی ترقی کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
(برائے ایس ایم ایس: 03343438802 اس امید کے ساتھ میسج کیجیے کہ اگر زندہ رہے اور لاپتا نہ ہوئے تو جواب ضرور دیں گے)