گرینڈ پلان کا فسانہ 

364

عارف بہار
ملک میں گرینڈ پلان کی افواہوں کے جھکڑ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے اس بیان کے ساتھ ہی چلنا شروع ہو گئے تھے جس میں انہوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے متعلق شکوک شبہات کا اظہا ر کیا تھا۔ انہوں نے ’’کچھ ہونے والا ہے‘‘ کی بات کرکے سیاسی حالات سے اپنی مکمل مایوسی ظاہر کی تھی۔ سردار ایاز صادق کی اس بات کا مطلب عدلیہ کی سرپرستی میں ایک طویل المیعاد عبوری حکومت کا قیام تھا۔ یہ افواہیں جب زوروں پر تھیں تو اس وقت عمران خان کے خلاف دائر رٹ کے محفوظ فیصلے کے اعلان میں چند دن باقی تھے۔ عدالت کا فیصلہ آیا تو عمران خان کی کشتی حالات کے بھنور سے باہر نکل آئی۔ عمران خان اس وقت طاقت کی راہ داریوں کی طرف جاری دوڑ میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی دو عشرے سے زیادہ مدت پر محیط سیاسی جدوجہد کے فیصلہ کن مرحلے میں ہیں۔ سیاسی مخالفین کی طرف سے اس راہ میں چھوٹے بڑے اسپیڈ بریکر کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ جب پاناما کیس میں صادق اور امین کی بحث اپنے انجام کو پہنچ رہی تھی تو عائشہ گلالئی غیر اخلاقی ایس ایم ایس کے ساتھ سامنے آئیں اور عمران خان کی سیاسی گاڑی کے آگے میڈیا کی حد تک ایک بڑا اسپیڈ بریکر نصب ہوگیا۔ نااہلی کیس اس راہ میں نصب اب تک کا سب سے بڑا اسپیڈ بریکر تھا۔ عمران خان مغربی عورت کی مشرقی انداز کی وفا کی مدد سے اس اسپیڈ بریکر کو ہٹانے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک معروف صحافی کے مطابق ابھی بنی گالہ کیس سے بڑا اسپیڈ بریکر اس راہ میں راہ میں نصب ہونا باقی ہے۔ وہ ہے سیتا وائٹ کی بیٹی ٹیریان کا معاملہ۔ اگر ایسا ہوا تو جمائما یہاں بھی عمران خان کی مدد کرسکتی ہے کیوں کہ سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں گردش کرتی رہی ہیں جن میں ٹیریان لندن میں عمران خان کے بیٹوں کے ساتھ موجود ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جمائما ٹیریان سے راہ ورسم پیدا کر چکی ہیں۔ طاقت کی راہ داریوں کی طرف بڑھتی ہوئی عمران خان کی گاڑی ایک بڑے اسپیڈ بریکر سے گزر چکی ہے مگر ابھی بھی ’’ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں‘‘ کے مصداق بہت کچھ خطرات کی زد میں ہے۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کے گریٹر پلان سے موجودہ اسمبلی تو کیا موجودہ سسٹم کی بساط ہی لپٹتی محسوس ہو رہی تھی اور ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ سازش نواز شریف کے خلاف نہیں بلکہ سسٹم کے خلاف ہو رہی ہے۔ ان کے اس تاثر کی نفی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف نے لندن میں یک زبان ہو کر یوں کی تھی کہ سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں۔ حکومت اپنی مدت پوری کر ے گی۔ خواجہ آصف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگلا الیکشن جیت کر حکومت بھی بنائیں گے۔ اس طرح وزیر اعظم اور اسپیکر کی بزم ہائے یار سے جمہوریت اور سسٹم کے لیے الگ الگ خبریں آرہی تھیں۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اسپیکر کے خدشے کو اندر کی بات کہتے ہوئے اس کی تائید کی تھی۔ عمران خان اس تاثر کی نفی کر رہے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے۔ آصف زرداری نے ملتان جلسے میں کہا ہے کہ ابھی تک سازش نہیں ہو رہی لیکن ہم کسی وقت سازش کر بھی سکتے ہیں۔
گرینڈ پلان کے ساتھ گرینڈ دھرنے کی باتیں بھی زبان زد خاص وعام ہیں۔ جس طرح عمران خان کی سیاسی گاڑی کے آگے اسپیڈ بریکر لگے اور سجے ہوئے ہیں اسی طرح شہباز شریف کی سیاست کے آگے بھی ایک کے بعد دوسرا اسپیڈ بریکر لگ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اگلا معرکہ عمران خان اور شہباز شریف میں ہونے جا رہا ہے اور پیپلزپارٹی اس منظر میں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوششوں میں ہے۔ شہباز شریف کی راہ میں حدیبیہ پیپرز کا اسپیڈ بریکر تو ہٹ گیا مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا اسپیڈ بریکر ابھی ان کا منتظر ہے۔ اس ماحول میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کئی وضاحتیں پیش کی ہیں۔ نظام قانون کو درپیش رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے کسی قسم کے پلان کا حصہ ہونے کے تاثر کو یکسر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کسی پلان کا حصہ ہے اور نہ بنے گی کسی کا زور چلتا تو حدیبیہ پیپرز کا فیصلہ اس طرح نہ آتا ہم پر دباؤ ڈالنے والا ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ اگر جمہوریت نہیں تو آئین بھی نہیں۔ اس حقیقت سے کون غافل ہے!! عدلیہ ایک آئینی ادارہ ہے اور سیاسی جماعتوں کی بقا اور زندگی کا آئین سے گہرا تعلق ہے۔ آئین کی شاخ پر جن پرندوں کا بسیرا ہوتا ہے عدلیہ اور سیاسی جماعتیں ان میں شامل ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں کی مدد سے تشکیل پاتی ہے اس لیے پارلیمنٹ کا وجود سیاسی جماعتوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ سے بھی اہم ادارہ سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ ان کے رویے،جمہوری انداز، گورننس کا اسٹائل، امانت، دیانت اور صداقت آخر کار پارلیمنٹ کی صورت میں منعکس ہو تے ہیں۔ عدلیہ یا کوئی سیاسی جماعت اگر ماورائے آئین نظام کی حمایت کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس شاخ ہی کو کاٹ رہی ہے جس پر ان کا آشیانہ ہے۔ پارلیمنٹ میں پہنچنے کی سکت رکھنے والی کوئی بڑی سیاسی جماعت اور آئین کی تعبیر وتشریح اور حفاظت پر مامور عدلیہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے شاہانہ مزاجوں کو آزاداور غیر جانب دار اداروں کی عادت ہی نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس بھری بزم میں ہر شخص کی سوچ، رائے اور ضمیر کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ہم راحیل شریف کے انتخاب سے شروع ہونے والے منظر کو سمجھ نہ سکے مغالطوں کا یہ سلسلہ عدلیہ تک جاری ہے۔