اسلامی سربراہ کانفرنس سے مسلم امہ کی مایوسی

408

۔48 سال قبل جب ایک جنونی آسٹریلوی عیسائی، ڈینس مائیکل روہن نے 8سو سال پرانی مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی اور مسجد کا منبر اور چوبی چھت خاکستر کر دی تھی تو اس وقت سارے عالم اسلام میں زبردست احتجاج بھڑک اٹھا تھا۔ یروشلم کے مفتی امین الحسینی نے عالم اسلام کے سربراہوں کو للکارہ تھاکہ وہ مسلمانوں کے قبلہ اول کی انتہائی مقدس مسجد پر حملہ کا بھرپور جواب دیں۔ مفتی یروشلم کی اس للکار اور مسلم امہ کے شدید غیظ و غضب کے پیش نظر اس سانحہ کے ایک ماہ بعد مراکش کے دارالحکومت رباط میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ میں یہ کانفرنس کَور کرنے کے لیے رباط میں تھا۔ اس وقت مسلم سربراہوں کا عزم دیکھنے کے قابل تھا لیکن افسوس کہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے پہلے ہی کانفرنس میں ہندوستان کے وفد کی شرکت پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اسی روز گجرات کے شہر احمد آباد میں خونریز مسلم کُش فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس کے باوجود بیش تر مسلم سربراہوں نے کانفرنس میں ہندوستان کی شرکت کی حمایت کی تھی۔ ان کی دلیل تھی کہ ہندوستان اسلامی ملک نہ سہی لیکن وہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور خلافت کے تحفظ کی تحریک میں ہندوستان کے مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اس لیے ہندوستان کو کانفرنس میں شریک کیا جائے۔ لیکن جب پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اس پر ڈٹ گئے تو ہندوستان کے وفد کو صرف مبصر کی حیثیت سے شرکت کی رعایت دی گئی جس کے بعد کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا۔
گو یہ خوش آئند بات تھی کہ اسلامی سربراہوں کی اس پہلی کانفرنس میں یہ طے کیا گیا کہ اقتصادیات، سائنس، ثقافت اور روحانی شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے مسلم ممالک مشترکہ جدو جہد کریں گے لیکن یہ امر مایوس کن تھا کہ اس کانفرنس میں جو مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کے سانحہ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرنے کے لیے بلائی گئی تھی، مسجد اقصی اور گنبد صخریٰ کے تحفظ اور فلسطینیوں کو اسرائیل سے آزاد کرانے کے لیے کوئی تدبیر نہ سوچی گئی اور نہ کوئی لائحہ عمل وضع کیا گیا۔ مسلم امہ کو بڑی توقعات تھیں کہ پہلی بار اسلامی دنیا کے 57ممالک کے سربراہ جمع ہوئے ہیں تو فلسطین کی آزادی اور یروشلم کے اسلامی تشخص کے تحفظ کے بارے میں کوئی ٹھوس فیصلے کریں گے۔ لیکن مسلم سربراہوں کے اس قدر بودے رد عمل نے مسلم امہ کو سخت مایوس کیا۔ رباط کی سربراہ کانفرنس کے چھ مہینے بعد جدہ میں مسلم وزراء خارجہ کے اجلاس میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم OICقائم کی گئی۔ پھر 31سال گزر گئے، اس دوران امریکا کی کانگریس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کی، ارض فلسطین پر مستقل قبضہ کرنے کے لیے بڑے پیمانہ پر یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا، اور محصور غزہ پر 20 حملے ہوئے، کشمیر میں ہندوستان کی فوج تحریک آزادی کو بری طرح سے کچلتی رہی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی رہی، بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا اور عراق پر حملہ کے بعد لیبیا میں قذافی کا تختہ الٹنے کے لیے امریکا، برطانیہ اور فرانس نے فوجی مداخلت کی لیکن OIC ایسی خاموش رہی کہ جیسے کہ اس کا وجود ہی نہیں۔ آخر کار 2011 میں OIC کا نام بدلنے کا فیصلہ کیا گیا اور اسے اسلامی تعاون کی تنظیم کا نام دیا گیا۔ یوں اسے بے اختیار تنظیم بنا دیا گیا۔ مارچ2015میں بہت سے مسلم ممالک کو سخت حیرت ہوئی جب کسی صلاح مشورہ کے بغیر OIC نے یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں فوجی مداخلت کی حمایت کی۔
مسجد اقصیٰ میں آتش زنی کے سانحہ کے نصف صدی کے بعد، جب یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تو پورے عالم اسلام میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی اس صورت حال کے پیش نظر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی تحریک پر 13دسمبر کو استنبول میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ لیکن کئی اعتبار سے یہ اسلامی سربراہ کانفرنس مسلم امہ کے لیے مایوس کن رہی۔ اول تو کانفرنس میں سعودی عرب، مصر اور مراکش کے سربراہوں کی عدم شرکت مسلم ممالک کے درمیان اختلافات کو عیاں کرتی تھی جب کہ رباط میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد میں سعودی عرب کے شاہ فیصل، مصر کے انوار سادات اور مراکش کے شاہ حسن پیش پیش تھے۔
استنبول کانفرنس سے مسلم امہ کو توقع تھی کہ ٹرمپ کے اعلان پر پورے عالم اسلام میں جو شدید احتجاج اور ناراضی بھڑکی ہے اس کے پیش نظر کانفرنس میں یروشلم کے بارے میں ٹرمپ کے اعلان کے جواب میں کوئی عملی اقدام اٹھایا جائے گا اور فلسطینیوں کو اسرائیل کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کا کوئی قابل عمل منصوبہ تیار کیا جائے گا، عام توقع تھی کہ استنبول کانفرنس میں امریکا اور اسرائیل کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جائے گا اور کم از کم امریکا سے اسلامی ممالک کے سفیروں کی واپسی اور ٹرمپ کے اس اعلان کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے اور ایک مقبوضہ علاقہ کے بارے میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوا کہ اسلامی سربراہ تھک ہار گئے ہیں۔ استنبول میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے اعلانیہ میں صرف اتنا کہا گیا کہ 57ملکوں کی اسلامی سربراہوں کی تنظیم، مشرقی یورشلم کو فلسطین کی ’’آزاد مملکت‘‘ کا دارالحکومت تسلیم کرتی ہے۔ یہ عجیب و غریب اعلان ہے کیوں کہ ابھی تو فلسطین کی آزاد مملکت وجود میں نہیں آئی ہے اور حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو مستقبل قریب میں اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ استنبول کانفرنس کے اعلانیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکا کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے لیے مصالحت کار تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی اب تک عملی طور پر امریکا کی اس تنازعے میں مصالحت کار کی حیثیت نہیں رہی ہے کیوں کہ وہ کھلم کھلا اسرائیل کی جانب داری کرتا رہا ہے۔ جب بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کی شکایت پیش کی گئی ہے امریکا نے اس کو مسترد کرنے کے لیے ایک دقیقہ کے لیے بھی حق تنسیخ استعمال کرنے سے توقف نہیں کیا ہے۔ امریکا کس طرح مصالحت کار ہو سکتا ہے جب کہ صدر ٹرمپ کے داماد کروشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر فریڈ مین کا فلسطینی زمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر میں سرمایہ لگا ہوا ہے۔
جہاں تک مسلم ممالک کی طرف سے امریکا اور اسرائیل کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کا سوال ہے تو اس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی ممالک امریکا کے خلاف کیا اقتصادی بائیکاٹ کر سکتے ہیں جب کہ خود عرب ممالک، قطر کا اقتصادی بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ مصر میں عبد الفتح السیسی کی فوجی حکومت اپنی بقا کے لیے امریکا کی حمایت او ر امریکی اسلحہ کی دست نگر ہے۔ اور سعودی عرب کی قیادت میں متعدد عرب ممالک ایران کے خلاف معرکہ آرائی میں شامل ہیں اور کھلم کھلا اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔
بہت سے مغربی مبصرین کی رائے ہے کہ OICکبھی بھی دنیا کے ایک ارب اسی کروڑ مسلمانوں کی مضبوط، طاقت ور اور با اثر تنظیم نہیں رہی۔ اسے کبھی بھی عالمی طاقت تصور نہیں کیا گیا اور اب بھی اس تنظیم کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ یہ واقعی مسلم امہ کی ترجمانی کرتی اور ان کی امیدوں، تمناؤں اور خواہشات کی عکاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استنبول کی اسلامی سربراہ کانفرنس مسلم امہ کے لیے مایوس کن رہی ہے۔
کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد
کہ ہے مردِ مسلماں کا لہو سرد