گزشتہ منگل کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی پر اپنی پہلی پالیسی جاری کرتے ہوئے حسب معمول پاکستان کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کے وقت کے مطابق رات گئے کیے گئے ان کے خطاب سے ایسا لگ ہا تھا جیسے وہ امریکا کی سلامتی پر نہیں پاکستان پر اپنے الزامات کو دوہرا رہے ہیں اور ان کی پالیسی کا محور و مرکز پاکستان ہے۔ گو کہ پاکستان پر ٹرمپ کے الزامات نئے نہیں اور امریکی انتظامیہ کے دیگر عہدیدار ایک عرصے سے پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی اور دہشت گردی میں تعاون کے الزامات لگاتے رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے لہجے میں ایسی فرعونیت تھی جیسے وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے کسی غلام کے بارے میں بات کررہے ہیں ۔ انہوں نے حکم صادر کیا کہ اسلام آباد دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں سے دہشت گرد دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں ۔ ٹرمپ نے بڑے تکبر سے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو ہر سال بڑی رقم دیتے ہیں۔ چھڑی دکھانے کے ساتھ گاجر دکھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد کے ساتھ دیر پا پارٹنر شپ کے خواہش مند ہیں ۔ پاکستانی حکمرانوں نے امریکا کی بہت خدمت کرلی اب وقت آگیا ہے کہ امریکا سے دیرپانہ قلیل المدت پارٹنر شپ کو خیر باد کہہ دے، جانی و مالی نقصانات کے بدلے میں صرف دھمکیاں ہی ملی ہیں ۔ امریکا نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے پاکستان کو اب تک 50ارب ڈالر دیے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امریکی حکمرانوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ گزشتہ 16سال سے ناٹو ممالک کی فوج لے کر افغانستان پر قبضے کے باوجود وہاں کیا کامیابی ہوئی ہے جب کہ امریکا اوراس کے حواری جدید ترین عسکری آلات اور ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔ افغانستان میں ناکامی چھپانے کے لیے الزام پاکستان پر عاید کردیا جاتا ہے جب کہ یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات افغانستان کی سمت سے ہوتے ہیں۔ امریکا کے زیر تسلط اس ملک سے دہشت گرد اور خود کش حملہ آور بڑی آسانی سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ۔ امریکا خود افغانستان میں ہونے والی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام ہے اور پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے کہ کابل پر حملہ کرنے والے اسلام آباد کا رخ کرسکتے ہیں۔ پاکستان پردباؤ ڈالا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائے لیکن اس کا مرکز تو افغانستان ہی میں ہے۔ امریکا اور اس کی کٹھ پتلی کابل انتظامیہ کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ درحقیقت یہ امریکا ہی ہے جو دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جتنی بھی دہشت گردی ہو رہی ہے، خون خرابہ ہو رہا ہے اس کے پیچھے امریکا ہی نکلتا ہے۔ افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے لاکھوں افغان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ لیکن یہ کہاں جائیں گے۔ پاکستان تو سوویت یونین کے حملے کے بعد سے لاکھوں افغانوں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔گزشتہ منگل ہی کو پاکستان کے مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے کھل کر کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ امریکا ہے، وہ کشمیر کے مسئلے میں بھارت سے مل گیا ہے، واشنگٹن نئی دہلی کی زبان بول رہا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر آج جو بات کررہے ہیں وہ نجانے کب سے حکمرانوں کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ امریکا پاکستان کا دوست نہیں، وہ آقا بن بیٹھا ہے۔ پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے اپنے نام سے جو کتاب چھپوائی تھی اس کانام تھا ’’ آقا نہیں دوست‘‘(Friends Not Master)۔ لیکن خود ایوب خان نے امریکا کو اپنا آقا بنا رکھا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اقتدار پر قبضے کے لیے امریکی اشارے کا انتظار کیا تھا۔ پاکستان کے ایک دانشور نے گزشتہ دنوں سیاسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک طرح سے دھمکی دی ہے کہ امریکا ابھی تو خاموشی سے دیکھ رہا ہے لیکن زیادہ عرصہ خاموش نہیں رہے گا۔ اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ ٹرمپ نے اپنی پالیسی تقریر میں بھی کھل کر بھارت کی حمایت کی ہے اور بقول ناصر جنجوعہ، امریکا نئی دہلی کی زبان بول رہا ہے۔ لیکن کیا یہ بھارتی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور پاکستان کی ناکامی نہیں ہے؟ ناصر جنجوعہ کا یہ موقف بھی درست ہے کہ امریکا چین سے مقابلے کے لیے خطے میں عدم توازن پیدا کررہاہے مگر افغانستان میں شکست کھا گیا ہے، وہاں طالبان مزید مضبوط ہو رہے ہیں ۔ منگل ہی کو کابل میں خفیہ ایجنسی این ڈی ایس (نیشنل ڈیفنس سروس) کے تربیتی مرکز پر حملہ ہوا جس میں 3حملہ آور مارے گئے، حسب معمول داعش نے ذمے داری قبول کرلی۔ اگر امریکا کی ناک کے نیچے داعش افغانستان میں سرگرم ہے تو کیا اس کی ذمے داری بھی پاکستان پر ہے ؟ امریکا دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے سے کیوں گریز کرتا ہے، کیا اس لیے کہ پھر اس ملک میں اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر مسلمانوں پر جو ضرب لگائی ہے اس کا ردعمل تو آئے گا۔ ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ منگل ہی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرار داد مسترد کردی جس کی حمایت 15میں سے 14ارکان نے کی تھی۔مصر کی جانب سے پیش کردہ قرار داد میں امریکی صدر کو متنازع فیصلہ واپس لینے اور تمام ممالک کو اپنے سفار ت خانے بیت المقدس منتقل نہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ اب یہ معاملہ جنرل اسمبلی میں جائے گا ۔