تلاش خود کریں

492

مرۃ العروس اردو زبان کا ایک مشہور ناول ہے یہ ناول ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے لکھا تھا اس ناول کے کچھ کرداروں نے دھوم مچا دی تھی۔ اکبری، اصغری اور ماما عظمت کے کردار ہماری اردو کی نصابی کتابوں میں بھی شامل ہیں اکبری اور اصغری کون ہیں؟ یہ کوئی غیر مرئی مخلوق نہیں‘ بلکہ کہانی کے کردار کے مطابق اکبری اور اصغری دو بہنیں تھی۔ اکبری بڑی بہن تھی جو پھوہڑ، بدزبان لڑکی تھی جب کہ اصغری چھوٹی بہن تھی جو نیک سیرت، خوش اخلاق، سلیقہ شعار اور معاملہ فہم تھی۔ ماما عظمت گھریلو ملازمہ تھی جو ہیرا پھیری بھی کرتی تھی اور گھر میں سازشوں کے جال بنتی رہتی تھی۔ آج اگرچہ زمانہ بدل گیا ہے‘ الیکٹرونکس کی دنیا نے ایک نئی دنیا آباد کردی ہے اب کمپیوٹر‘ موبائل فون غلطی پکڑ لیتا ہے مگر اکبری، اصغری اور ماما عظمت کے کردار آج بھی پائے جاتے ہیں ان تینوں کرداروں کی نئے تناظر میں بھی پوری طرح فٹ ہے۔
اکبری کی شادی ہوئی تو اس کے گھر میں اس کی حماقتوں اور پھوہڑ پن کی وجہ سے ہمیشہ جھگڑا رہتا تھا۔ اکبری دولت پر جان دیتی تھی اور ہمیشہ دولت حاصل کرنے کے نت نئے طریقے سوچا کرتی تھی۔ جائز ناجائز کی اسے کوئی پروا نہیں تھی‘ ماما عظمت نے اکبری کو پٹی پڑھائی کہ اس کے شوہر کی قلیل آمدن سے وہ اپنے شوق پورے نہیں کر پائے گی ہر اچھا برا طریقہ اختیار کرکے اپنی دولت میں اضافہ کرنا چاہیے اکبری نے یہ بات اپنے پلو سے باندھ لی ماما عظمت نے اکبری کو ایک منشی سے ملوایا جو مختلف حیلے بہانوں سے لوگوں کی جیبوں سے دولت نکلوانے کی مہارت رکھتا تھا منشی نے تعلقات کے عوض اکبری کو دولت فراہم کرنا شروع کر دی اکبری کے خاوند کو اکبری کے رنگ ڈھنگ بدلے نظر آئے تو اس نے اکبری کو گھر سے نکال دیا۔ اکبری گھر سے نکل کر پچھتائی مگر پھر معافی مانگ کر گھر واپس آ گئی مگر ماما عظمت کی پٹیوں اور منشی کی ترکیبوں کے باعث پھر اسی روش پر واپس آ گئی خاوند نے پھر اکبری کو گھر سے نکال دیا اکبری کو کافی عرصہ اپنے ماں باپ کے گھر گزارنا پڑا تاہم اکبری سدھرنے کے دعوے کر کے اور آئندہ کے لیے گھر کا خیال رکھنے کی قسمیں کھا کر اپنے خاوند کے گھر واپس آئی۔
اکبری کانوں کی بھی کچی تھی اور اپنی کج فطرتی سے بھی مجبور تھی چناں چہ وہ پھر ماما عظمت کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئی اور منشی سے کہا کہ اس مرتبہ اسے بے انتہا دولت مند بنا دے اب کی بار خاوند نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا مگر اکبری خاوند سے پھر جھگڑا مول لے بیٹھی۔ خاوند نے اس کے طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔ معاملہ قاضی کے پاس چلا گیا۔ قاضی نے اس سے دولت کے ذرائع دریافت کیے اکبری اپنی دولت کے ذرائع بتانے میں ناکام رہی تو قاضی نے خاوند کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اکبری کو بے دخل کردیا‘ اس کے مقابلے میں اصغری‘ جو نیک سیرت اور معاملہ فہم تھی وہ اپنے خاوند کے گھر کا خوب خیال رکھتی تھی۔ اس کو کسی شکایت کا موقع نہیں دیتی تھی اس طرح اس کی زندگی خوشگوار گزر رہی تھی۔ اصغری اکبری کو گاہے گاہے سمجھانے کی کوشش بھی کرتی تھی مگر اکبری اس کی نصیحتوں پر ذرا بھی کان نہ دھرتی تھی ماما عظمت ایک مکار عورت تھی اس کی پوری کوشش تھی کہ جیسے اس نے اکبری کا گھر برباد کیا تھا ویسے ہی اصغری کا گھر بھی برباد کر دے۔ وہ اصغری کو بھی الٹی سیدھی پٹیاں پڑھانے کی کوشش کرتی تھی مگر اصغری ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی تھی۔
اصغری معاملہ فہمی کی وجہ سے محلے کی اچھی عورتیں اس کی دوست بن گئی تھیں ماما عظمت کو اصغری کی خوشگوار زندگی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اس نے ایک خطرناک چال چلی وہ ایک بار پھر اکبری کے پاس گئی اور اس کے کان میں پھونک ماری کہ اس کا گھر خراب کرنے میں دراصل اصغری کا ہاتھ ہے اور یہ اصغری ہی تھی جس نے اکبری کے خاوند کو پٹی پڑھائی کہ وہ اکبری کو طلاق دے دے۔ اکبری کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی بہن کا گھر بھی اجاڑ دے گی اس نے اپنے ایک نوکر کو قاضی کے پاس شکایت لگانے بھیج دیا کہ اصغری نے اپنے پاس ایسے زیور رکھے ہوئے ہیں جو چوری کا مال ہیں اور وہ اس نے سب سے چھپا کر رکھے ہیں معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ گیا۔ اصغری نے اپنے تمام زیورات کی تفصیل قاضی کو بتا دی۔ اصغری کے خاوند نے بھی اصغری کا ساتھ دیا۔ قاضی مطمئن ہو گیا اور اصغری کا موقف تسلیم کرلیا یوں اصغری ’’اہل ٹھیری‘‘ اکبری اگلے زمانے میں بھی نا اہل تھی اور آج بھی نا اہل ہے۔ اصغری تب بھی اہل تھی اور اب بھی اہل ہے آج کے دور کی اس نئی کہانی کا تڑکا یہ ہے کہ عدالت سے جہانگیر ترین نااہل اور عمران خان اہل ٹھیرے ہیں اب آپ ماما عظمت کی تلاش خود کرلیں کہیں یہ بنی گالہ تو نہیں آتا جاتا۔