آرمی چیف‘ سینیٹ اور سیاست دانوں کا مخمصہ

258

میاں منہر احمد

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بریفنگ دینے کے لیے جی ایچ کیو سے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے‘ جہاں انہوں نے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو ملک کی داخلی سلامتی اور خارجی اور سرحدوں کی صورت حال پر بریفنگ دی آرمی چیف کی آمد اور سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے انہیں خوش آمدید کہا‘ چیئرمین سینیٹ کے چیمبر جاتے ہوئے وہ سینیٹ میں حال ہی میں بنائی جانے والی دستور گلی کے سامنے سے گزرے‘ دستور گلی عموماً جس وقت پارلیمنٹ کے اجلاس ہو رہے ہوں تب کھولی جاتی ہے اور باقی اوقات بند رکھی جاتی ہے جس وقت آرمی چیف پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو اس وقت پارلیمنٹ میں قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں سے کسی بھی ایوان کا اجلاس نہیں ہورہا تھا۔ یہ دستور گلی کیا ہے؟ ایک تاریخ ہے۔۔۔ جس میں قائد اعظم کو حلف لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے‘ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا دور‘ اس کے بعد جونیجو دور‘ پھر بے نظیربھٹو اور اس کے بعد نواز شریف‘ پھر میر ظفر اللہ جمالی‘ شوکت عزیز‘ ان کے بعد یوسف رضا گیلانی بہر حال اس گلی کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان میں جس دور میں مارشل لا رہا‘ آئین منسوخ رہا یا معطل رہا دستور گلی میں دکھائی جانے والی تاریخ میں یہ دور سیاہ رنگ میں دکھایا گیا ہے۔
آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا سینیٹ کی ہول کمیٹی کو بریفنگ دینا ہماری سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب ہے اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا ہاں البتہ پارلیمنٹ سے صدر پاکستان کی حیثیت سے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے بھی خطاب کیا۔ ہمارے ہاں یہ تصور رہا ہے کہ ملک میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج الگ الگ فریق ہیں بلکہ انہیں حریف بھی سمجھا جاتا رہا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو بریفنگ دے کر جمہوریت‘ پارلیمنٹ اور منتخب ایوانوں سے متعلق اپنے خیالات کھل کر سامنے رکھ دیے کہ وہ فریق ہیں نہ حریف‘ بلکہ دستور نے انہیں جو ذمے داری دی ہے وہ اس کے رکھوالے اور نگہبان ہیں۔ آرمی چیف نے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو اس وقت بریفنگ دی کہ جب ملک میں ایک غیر یقینی کی سیاسی فضا موجود ہے‘ مسلم لیگ (ن) عدلیہ کے روبرو کھڑی ہے اور ملک میں ایک تناؤ جیسی کیفیت ہے۔ مسلم لیگ سمجھتی ہے تحریک انصاف کو سایہ فراہم کیا جارہا ہے اور مسلم لیگ کو کڑکتی دھوپ میں کھڑا کیا گیا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی سیاست ختم اور اب شہباز شریف اور عمران خان دو بڑے سیاسی حریف ہیں کہ آنے والے انتخابات میں عمران خان اور شہباز شریف کے درمیان میدان لگے گا۔ عمران خان نے بھی اپنا بیانیہ حدیبیہ کیس کی اپیل کا فیصلہ شریف خاندان کے حق میں آنے کے بعد تبدیل کرلیا ہے۔ لیکن اب تو نیب نظر ثانی کی درخواست کے ساتھ ایک بار پھر عدالت کے دروازے اور دہلیز پر کھڑا ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔
حدیبیہ کیس میں اسحاق ڈار کی گواہی بہت اہم ہے لیکن اس کیس میں پیپلزپارٹی خاموش ہے‘ کیوں کہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کے خلاف عزیر بلوچ کے بیان بھی اسی میزان میں تولے جائیں گے جس میں اسحاق ڈار کا بیان تولا جارہا ہے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اصل مقابلہ شہباز اور عمران کے درمیان ہوگا ان کی رائے سے ’’نواز شریف لورز‘‘ متفق نہیں ہیں لیکن حقائق یہ ہیں کہ نواز شریف کے پیچھے اصل سیاسی طاقت بھی شہباز شریف ہی کی تھی، اور ہر نازک موقع پر وہ صورت حال کو سنبھال لیتے تھے، اس لیے وزارت عظمیٰ کی دوڑ کے لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس سوائے شہباز شریف کے اور کوئی چوائس نہیں۔
حال ہی میں پیدا ہونے والا سیاسی منظر دیکھا جائے تو ایک بڑی متوازن صورتِ حال پیدا ہونے جارہی ہے صورت حال میں سب کے لیے یکساں طور پر سب کچھ موجود ہے، فی الوقت کسی کا پلڑا بھاری نظر نہیں آرہا مسلم لیگ (ن) کو نئے صدر کی تلاش ہے اور تحریک انصاف کو متبادل سیکرٹری جنرل ڈھونڈنا پڑ رہا ہے، عمران خان نا اہل ہوجاتے تو اور وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار ڈھونڈنا پڑ جاتا تو جوتیوں میں دال بٹنے کی نوبت آجانی تھی‘ شیخ رشید نے یہ کیوں کہا کہ عمران خان نااہل ہوجاتے تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی‘ شیخ رشید کے اس بیان پر ان کی سیاسی لحاظ سے ضرور گرفت ہونی چاہیے تھی لیکن سب خاموش رہے۔ تحریک انصاف کے پاس عمران خان کا متبادل نہیں ہے مسلم لیگ (ن) کے پاس شہباز شریف کی شکل میں نواز شریف کا ایک ہم پلہ متبادل موجود ہے، جسے آج بھی مسلم لیگ (ن) اپنا لیڈر سمجھتی ہے، لیکن تحریک انصاف میں تو اس وقت بھی عہدوں اور اختیارات کی جنگ جاری ہے جس طرح عمران خان کو کلین چٹ ملی ہے، اسی طرح شہباز شریف کو بھی مل گئی ہے۔ سیاست کے تیسرے فریق آصف علی زرداری نے خاموشی اختیار کرکے حالات بھانپتے ہوئے بلاول زرداری کو آگے کیا ہوا ہے پیپلزپارٹی کے پاس بلاول ایک ایسا ٹرمپ کارڈ ہے جو جہانگیر ترین کے اے ٹی ایم کارڈ کے برعکس کبھی بند نہیں ہوگا۔ بلاول کا سیاسی قد کاٹھ تیزی سے نکل رہا ہے، ان کے لہجے میں پایا جانے والا بچپنا بھی ختم ہورہا ہے۔ ملتان میں ایک بڑے اور کامیاب جلسے کے بعد بہاولپور اور رحیم یار خان میں جلسوں کی تیاری کر رہے ہیں ملتان میں بلاول ہاؤس کی تعمیر ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ آصف علی زرداری یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اب پنجاب میں ان کا ہیڈ کوارٹر ملتان کا بلاول ہاؤس ہوا کرے گا۔ ملتان کے جلسے نے جو بند دروازے کھولے ہیں ایک بڑے پراپرٹی مافیا سے ملنے والا بلاول ہاؤس کہیں یہ دروازے دوبارہ بند نہ کردے، ملتان جلسے کو اگرچہ پارٹی نے ایک کامیاب جلسہ کہا لیکن سرائیکی صوبے کے ایشو نے اسے دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔
مجموعی طور پر ہماری سیاسی جماعتیں مقامی ایشو میں الجھی ہوئی ہیں اور انہیں سرحدوں پر اور سرحدوں سے پار کی صورت حال کا ادراک نہیں ہے سینیٹ کی ہول کمیٹی کے سامنے جو حقائق بیان کیے گئے ہیں سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ان ایشوز کو بھی ایڈریس کریں جمہوریت اور ووٹ صرف اپنے اقتدار کے حصول کی حد تک ہی محدود نہ رکھیں۔