سیاسی پہلوانوں کی للکار

522

پاکستان کی سیاست اب ایک نیاکھیل شروع ہوگیا ہے اور سیاست دان ایک دوسرے کو اس طرح دعوت مبارزت دے رے ہیں جس طرح اکھاڑے میں پہلوان ایک دوسرے کو للکارتے ہیں کہ ہمت ہو تو سامنے آؤ۔ نا اہل قرار دیے گئے میاں نوازشریف اب نظام عدل کی تحریک چلانے کا اعلان کررہے ہیں اور رانا ثناء اللہ فرما رہے ہیں کہ یہ تحریک چلی تو پیپلز پارٹی ساتھ کھڑی ہوگی۔ ویسے تو رانا ثناء اللہ کے دعووں میں کوئی وزن نہیں ، پیپلز پارٹی ہرگز بھی نوازشریف یا ن لیگ کی کسی تحریک میں حصہ نہیں لے گی کہ اس طرح اس کی ساکھ مزید متاثر ہوگی۔ پیپلز پارٹی کی نظر یں تو مرکز میں اقتدار پر لگی ہوئی ہیں اور آصف زرداری کئی بار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ آئندہ وزیر اعظم ان کا برخوردار بلاول ہوگا جس نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو راغب کرنے کے لیے اپنے نانا کا نام اپنے نا م میں شامل کرلیا ہے اور بلاول بھٹو کہلاتا ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی ہر معاملے میں ن لیگ کی مخالفت ہی کرے گی، اس کے ساتھ نہیں اس کے سامنے کھڑی ہوگی۔ میاں نوازشریف کی تو مجبوری ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ان کو نا اہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا اور انہیں غیر امین و غیر صادق قرار دے دیا۔ چنانچہ وہ نظام عدل کی تحریک کے نام پر درحقیقت عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کی تیاری کررہے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ الاپتے ہوئے انصاف اور تحریک انصاف کے طعنے دیتے نہیں تھکتے۔ عدالت عظمیٰ سے عمران خان کی برأت پر تو ان کی برہمی اور بڑھ گئی ہے۔ ان کے خیال میں عمران خان کو بری کرنا اور انہیں سزا دینا عدل نہیں بلکہ عدلیہ کے سامنے انصاف کے دو ترازو ہیں ۔ نواز شریف یہ لاحاصل لڑائی لڑتے رہیں گے جس میں نقصان یک طرفہ ہے۔ وہ اور ان کے حواری یہ گلا کرتے ہیں کہ نواز شریف کو ایک عرب ملک کا اقامہ رکھنے اور وہاں نوکری کرنے پر نکال دیا گیا۔ لیکن کیا یہ بات باعث شرم نہیں کہ پاکستان کا وزیر اعظم کسی دوسرے ملک میں نوکری کررہا تھا، خواہ تنخواہ وصول کی یا نہیں ۔ اس پر کسی نے شرمندگی کا اظہار نہیں کیا دوسری طرف سے ایک اور سیاسی پہلوان عمرا ن خان نے لنگر لہراتے ہوئے اعلان کیا کہ ایک طرف سے نواز شریف نکلیں گے تو دوسری طرف سے میں نکلوں گا۔ کبھی کبھی پاکستان آنے والے ’’ شیخ الاسلام‘‘ ظاہر القادری کہتے ہیں کہ ہم تحریک قصاص چلائیں گے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ تحریک عدل چلانے سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کو تو عدل فراہم کردیا جائے، تحریک کا آغاز وہیں سے کیا جائے۔ طاہر القادری کے استغاثہ میں نوازشریف، شہبازشریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو نامزد کیا گیا ہے اور اب وہ قصاص کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ ذمے داروں کے تعین کے حوالے سے جسٹس نجفی کی رپورٹ بہت کچھ کہہ رہی ہے لیکن بنیادی بات تو یہ ہے کہ دفتر منہاج القرآن کے سامنے پولیس کے وحشیانہ حملے میں 14 افراد شہید ہوئے، ذمے داروں کو کیا سزا ملی؟ جن افراد کے نام سامنے آئے تھے انہیں ترقی دے کر ادھر ادھر کردیا گیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز کے پرنسپل سیکرٹری کابھی بیرون ملک تقرر کردیا گیا جن کو اس دن نزلہ ہوگیا تھا۔ اب ن لیگ کے نا اہل صدر نوازشریف نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے۔ یہ فیصلہ تو 29جولائی کوبھی کردیا گیا تھا تاہم شہباز شریف کو گمان ہے کہ وہ اگر پنجاب چھوڑ کر مرکز میں چلے گئے تو ان کے جاری کردہ منصوبے رک جائیں گے۔ بقول ان کے وہ تو صرف عوام کی خدمت کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ نوازشریف کے اس اعلان کو اقربا پروری کہا جاسکتا ہے لیکن اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائداحزب اختلاف خورشید شاہ کا اعتراض بڑا دلچسپ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ نواز شریف کون ہوتا ہے ایسا اعلان کرنے والا، اس کافیصلہ تو عوام کریں گے۔ لیکن خورشید شاہ نے شاید اپنے لیڈر آصف زرداری کے کئی بار دیے گئے بیانات نہیں پڑھے یا مخالفت برائے مخالفت کے چکر میں نظر اندازکرگئے جو کہہ چکے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم بلاول ہوگا۔ خورشید شاہ نے اس وقت زرداری سے کیوں نہیں کہا کہ تم کون ہوتے ہو یہ اعلان کرنے والے، اس کا فیصلہ تو عوام کریں گے۔ لیکن بات چونکہ ن لیگ کی طرف سے کی گئی ہے اس لیے مخالفت کرنا ضروری ہے اور رانا ثناء اللہ یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ خواب دیکھنے میں کوئی پابندی نہیں لیکن ہر کس وناکس سے بیان کرنا بھی ضروری نہیں ۔ انتخابات پرامن طریقے سے ہوگئے تو اس کے بعدبھی بڑا اودھم مچے گا، نئے دنگل ہوں گے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے کہ ’’ ہم اتنے سیدھے نہیں کہ دوسروں کی حکومت چلنے دیں‘‘۔ اس سے مستقبل قریب میں ن لیگ کے عزائم کھل کر سامنے آرہے ہیں ۔ اگر عام انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ کے بجائے کسی اور جماعت نے حکومت بنا لی تو اسے چلنے نہیں دیا جائے گا۔ سعد رفیق یقیناًسیدھے نہیں بہت ٹیڑھے ہوں گے لیکن اپنی اس ٹیڑھ کے نتائج پر بھی کبھی غور کیا۔ کسی دوسری جماعت کی حکومت آئی تو ظاہر ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں ہی سے آئے گی۔ تو کیا ن لیگ کو عوام کا فیصلہ قبول نہیں ہوگا؟ فی الوقت تو ایک دوسرے کو گیدڑ اور بزدل قرار دینے کی بیت بازی ہو رہی ہے۔ نوازشریف اور عمران خان آپس میں بیٹھ کر طے کرلیں کہ گیدڑ کون ہے اور کون نہیں ۔ یہ فیصلہ خود کرلیں ورنہ کوئی اور کرگزرے گا۔ عمران خان اور ان کے حواری طاہر القادری چیلنج کررہے ہیں کہ نواز شریف کوئی تحریک نہیں چلا سکتے۔ اس فضا میں کئی طرف سے دھرنوں کی نئی قسط شروع کرنے کے اعلان کیے جارہے ہیں۔