دسمبر کا مہینہ امت مسلمہ کے لیے ایک طرح سے غم و اندوہ کا مہینہ بن گیا ہے غم کی جو تاریخیں اور سانحات یاد ہیں ان میں 16دسمبر 1971سقوط ڈھاکا، پھر چند برس قبل 16دسمبر ہی کو آرمی پبلک اسکول کا واقعہ جس میں سو سے زائد بچے شہید کیے گئے، 27دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا سانحہ اور اب اس سال 2017 کے دسمبر کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کا درجہ دیتے ہوئے امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کا شیطانی اعلان۔
قرآن مجید میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں کی مخالفت میں متحد ہیں۔ اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کے کردار کو امت مسلمہ بھلا نہیں سکتی۔ اسرائیل کے قیام میں عیسائیوں نے کس طرح ناانصافی سے کام لیا، اس کا ذکر تو بعد میں آئے گا پہلے اسرائیل جو ایک ناجائز ریاست ہے اس کے لیے خود یہودیوں کی منصوبہ بندی کا ایک مختصراً جائزہ پیش خدمت ہے۔
دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں نے انیسویں صدی کے آخر میں فلسطین میں اپنی ریاست کے قیام کے لیے ایک مہم شروع کی یہودی فلسطین میں جا کر آباد ہوں اور پھر 1880سے باقاعدہ مہاجرت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشہور یہودی لیڈر تھیوڈور ہرتزل نے صیہونی تحریک کا آغاز کیا پھر اس نے 1901میں سلطان ترکی عبدالحمید خان کو باقاعدہ ترکی کے ایک یہودی شہری آفندی (اس کا تعلق سالونیکا سے تھا جو اسپین سے نکالے جانے کے بعد ترکی میں آباد ہوا تھا) کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دیں‘ سلطان نے اس پیغام پر تھوک دیا اور کہا کہ: ’’جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک ترکی سلطنت موجود ہے اس وقت تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کیا جائے تمہاری ساری دولت پر میں تھوکتا ہوں‘‘۔ سلطان کا یہ جواب سن کر ہرتزل کی طرف سے صاف صاف یہ دھمکی دی گئی کہ تم اس کا برا نتیجہ دیکھو گے۔ اس کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں نے مل کر ترکی کے خلاف سازشیں شروع کیں۔ ایک طرف ترکوں میں یہ تحریک اٹھائی گئی کہ وہ سلطنت کی بنیاد اسلامی اخوت کے بجائے ترک قوم پرستی پر رکھیں، دوسری طرف عربوں کو عرب قومیت کا سبق پڑھایا گیا۔ اس عرب قوم پرستی فتنہ اٹھانے والے عیسائی عرب تھے بیروت اس کا مرکز تھا بیروت کی امریکن یونیورسٹی اس کو فروغ دینے کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔
اس موقع پر جو انتہائی عبرتناک واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ 1908جو تین آدمی سلطان عبدالحمید کی معزولی کا پروانہ لے کر ان کے پاس گئے ان میں دو ترک تھے اور تیسرا وہی آفندی یہودی تھا جس کے ہاتھ ہرتزل نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ سلطان کے پاس بھیجا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر وائزمین نے انگلستان کی حکومت کو یہ یقین دلایا کہ جنگ میں تمام دنیا کے یہودیوں کا سرمایہ اور ان کی قوت قابلیت انگلستان اور فرانس کے ساتھ آسکتی ہے اگر آپ ہم کو یہ یقین دلا دیں کہ آپ فتحیاب ہو کر فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنا دیں گے۔ ڈاکٹر وائز مین نے 1917میں انگریزی حکومت سے وہ مشہور پروانہ حاصل کرلیا جو اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے۔
اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی آبادی پانچ فی صد بھی نہ تھی، ایسے ملک کے متعلق سلطنت برطانیہ کا وزیر خارجہ (لارڈ بالفور) یہ تحریری وعدہ دے رہا تھا کہ ایک قوم کے وطن میں دوسری قوم کا وطن بنایا جائے گا، جو دنیا بھر میں انیس سو برس سے بکھری ہوئی تھی۔ فلسطین پر انگریزوں کے قبضے اور لارڈ بالفور کے اعلان سے یہودیوں کے طویل المعیاد منصوبے کا پہلا مرحلہ جو 1880 میں شروع ہوا 1917 میں مکمل ہوا۔
اس منصوبے کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب ’’مجلس اقوام‘‘ (League of Nation) اور اس کی اصل کارفرما بڑی طاقتوں برطانیہ اور فرانس نے بالکل اسی طرح کا کام کیا۔ 1922 میں مجلس اقوام نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو انگریزوں کے انتظام میں دے دیا جائے اس کا صاف مطلب یہ تھا فلسطین یہودیوں کو دے دیا جائے اس وقت فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تو کل آبادی 8,14,895 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 6,60,641 تھی جو کل کا 81فی صد بنتا ہے یہودیوں کی 10فی صد اور عیسائیوں کی 9فی صد تھی۔ یہودیوں کی اتنی آبادی بھی اس وجہ سے تھی وہ دھڑا دھڑ وہاں جا کر آباد ہو رہے تھے ورنہ 1917 میں ان کی آبادی چھپن ہزار تھی اس طرح 1917 سے 1947تک 30سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا، جس میں وہ اس قابل ہو گئے کہ فلسطین کو یہودیوں کا ’’قومی وطن‘‘ بنانے کے بجائے فلسطین میں ان کی ’’قومی ریاست‘‘ قائم کردیں۔ یہودیوں نے مار دھاڑ کرکے عربوں کو نکالنا اور زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ اس سلسلے میں جو مظالم عربوں پر کیے گئے آرنلڈ ٹائن بی ان کے متعلق اپنی کتاب A Study of History میں کہتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔ دیر یاسین میں 9اپریل 1948 کے قتل عام کا خاص طور پر اس نے ذکر کیا ہے، جس میں عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس سڑکوں پر نکالا گیا اور یہودی موٹروں پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھرے کہ ’’ہم نے دیر یاسین میں عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ‘‘۔
اس کے بعد یہودی منصوبے کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا جو 19سال کے اندر جون 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس اور باقی ماندہ فلسطین اور پورے جزیرہ نمائے سینا اور سرحد شام کی بالائی پہاڑیوں (جولان) پر اسرائیل کے قبضے سے تکمیل کو پہنچا۔ نومبر 1948میں اسرائیلی ریاست کا رقبہ 7993مربع میل تھا جون 67کی جنگ میں اس کے اندر 27ہزار مربع میل کا اضافہ ہوگیا اور چودہ پندرہ لاکھ عرب یہودیوں کے غلام بن گئے، اس کامیابی اصل وجہ یہ تھی کہ امریکا اس کا حامی و مددگار اور پشت پناہ بنا رہا۔
اب در حقیقت جس چیز سے دنیائے اسلام کو سابقہ درپیش ہے وہ یہودیوں کا چوتھا اور آخری منصوبہ ہے جس کے لیے وہ دو ہزار سال سے بے تاب تھے، اس منصوبے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃُ الصخرا کو ڈھا کر ہیکل سلیمانی پھر سے تعمیر کیا جائے، دوسرے یہ کہ اس پورے علاقے پر قبضہ کیا جائے جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔ 1969میں مسجد اقصیٰ کو جلانے سے لے کر اب تک کے جتنے واقعات و سانحات ہو رہے ہیں اور جو بڑی طاقتیں بالخصوص امریکا کررہا ہے اس کا سار ا مقصد چوتھے منصوبے کی کامیابی ہے حال ہی میں امریکا نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا جو اعلان کیا ہے وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
عرب لیگ کا جو پھسپھسا اجلاس ہوا ہے اس سے کچھ نہ ہو سکے گا‘ او آئی سی کا اجلاس بھی مایوس کن رہا۔ تمام اسلامی ممالک کو امریکا سے کم از کم ہتھیاروں کی خریدار ی کے معاہدے منسوخ کردینا چاہیے ہر ملک کو امریکی سفارت کار کو بلا کر اپنا احتجاج رجسٹر کرانا چاہیے، پاکستانی وزیر اعظم کی او آئی سی کے اجلاس میں تقریر اچھی تھی پاکستان میں تمام دینی جماعتوں نے مختلف اوقات میں ریلیاں نکال کر اور مظاہرے کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ جماعت اسلامی جو روز کہیں نہ کہیں مظاہرے اور جلوس نکال رہی تھی اس نے اتوار 17دسمبر کو کراچی میں ایک القدس ملین مارچ اہتمام کیا جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کرکے بیت المقدس سے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت دیا۔ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ جب تک ایک مسلمان بھی دنیا میں زندہ ہے اسرائیل بیت المقدس پر قبضہ نہیں کر سکتا انہوں نے تمام مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ جب تک ڈونلڈ ٹرمپ اپنا فیصلہ واپس نہیں لے لیتا اس وقت تک کے لیے امریکا سے سفیروں کو واپس بلایا لیا جائے۔