بپھرے ہوئے ٹرمپ کی دھمکیاں

395

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا نے ہٹ دھرمی اور چودھراہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ قرارداد مسترد کردی جس کے حق میں 15میں سے 14ارکان نے ووٹ دیاتھا۔ یہ قرار داد بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کے خلاف تھی۔ جمہوری اقدار کے تحفظ کی دعویدار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمہوریت کی مسلسل پامالی ہوتی ہے۔ اس کے 15 ارکان میں سے 5کو حق استرداد ( ویٹو) حاصل ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اکثریت کے فیصلے کو نظر انداز کر کے کسی قرار داد کو مسترد کرسکتا ہے۔ یہ انتہائی ناانصافی ہے۔ امریکا نے اپنے اس حق کو بارہا اسرائیل کی طرف داری میں استعمال کیا ہے اور اس کے خلاف کوئی قرار داد منظور نہیں ہونے دی۔ اس سے واضح ہے کہ امریکا ہی اسرائیل کا محافظ ہے اور اسے مسلم عرب ممالک کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ سلامتی کونسل سے قرار داد مسترد ہونے کے بعد فیصلہ ہوا تھا کہ اب یہ قرار داد جنرل اسمبلی میں پیش کی جائے گی جہاں کسی کو اسے مسترد کرنے کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ گزشتہ جمعرات کو القدس کے تنازع پر امریکی فیصلے کے خلاف قرار داد منظور کرلی گئی۔ قرار داد کے حق میں 128 ووٹ آئے اور صرف 9ووٹ اس کے خلاف پڑے۔ تاہم 35 غیر حاضر رہے یعنی انہوں نے حق یا مخالفت میں اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔ غیر حاضری بھی قرار داد کے حق میں جاتی ہے یعنی یہ ممالک بھی امریکا کے ساتھ نہیں تھے۔ انہوں نے امریکی دھمکیوں سے بچنے کے لیے غیر حاضر رہنامناسب سمجھا۔ بہرحال اقوام متحدہ نے امریکی صدر ٹرمپ کی اس خواہش کو مسترد کردیا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کادارالحکومت قرار دیا جائے۔ اسرائیل نے حسب توقع جنرل اسمبلی کی قرار داد بھی مسترد کردی اور جن ممالک نے قرار داد کے حق میں ووٹ نہیں دیا ان کی تعریف کی گئی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مخالفت کرنے والے ممالک اسرائیل کے ساتھ ہیں ۔خواہ اپنی مرضی سے یا امریکا کے خوف سے۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے زعم میں کھلی دھمکیاں دینی شروع کردی ہیں کہ جن ممالک نے ان کا حکم نہیں مانا ان کی امداد بند کردیں گے۔ ٹرمپ نے مزید فرمایا کہ اچھا ہوا ہمارے اربوں ڈالر بچ گئے جو ہم بطور امداد دیتے تھے۔ اگلے دن امریکی نائب صدر نے براہ راست پاکستان کو دھمکی دی کہ اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا اور اس کے لیے نتائج خطرناک ہوں گے۔ قرار داد کی منظوری کے بعد بھی واشنگٹن نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اپنے فیصلے پر عمل کریں گے۔ یہ امریکا کا پوری دنیا سے اعلان جنگ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ اپنی قرار داد پر کس طرح عمل کرواتی ہے کیوں کہ اس سے پہلے کئی مواقع پر اقوام متحدہ کی بے بسی اور کارروائی نہ کرنے کے ثبوت سامنے آچکے ہیں ۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1949ء سے آج تک سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کی لاچاری کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کو امداد دینے والوں میں امریکا سرفہرست ہے اور وہ یہ امداد بند کرنے کی دھمکی دیتا رہتا ہے۔ امریکی دھمکیوں پر پاکستان نے جواب دیا ہے کہ امریکی پیسوں کے بھوکے نہیں، دھمکیوں سے نہیں ڈرتے، امداد بند کرنے کا شوق پورا کرلے۔ پاکستان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ واشنگٹن فیصلہ کرے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلے گا یا اسرائیل کے ساتھ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا امریکی فیصلہ بین الاقوامی قانون، سلامتی کونسل اور جنرل کونسل کی قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، ہم اس عمل کی مذمت کرتے اور اسے مسترد کرتے ہیں ۔ امریکی انتظامیہ پاکستانی ردعمل پرخاص طور پر چراغ پا ہے اور امریکی نائب صدر نے فرمایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کو ’’نوٹس‘‘ پر رکھا ہوا ہے۔ امریکا نے اب تک پاکستان کو جو امداد دی ہے وہ افغانستان میں جاری اپنی دہشت گردی میں تعاون کے لیے دی ہے اور پاکستانی حکمران یہی کہہ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ یہ امریکا کی نہیں، ہماری جنگ ہے۔ لیکن اس جنگ میں نقصان سراسر پاکستان کا ہو رہاہے۔ جنرل اسمبلی میں قرار داد کی مخالفت کرنے والے 9ممالک میں اسرائیل اور امریکا کے علاوہ باقی 7ممالک نہ صرف غیر اہم ہیں بلکہ امریکا کے زیر اثر ہیں۔ ان میں گوئٹے مالا، ہنڈراس، مارشل جزائر، پیرو،ٹوگو، پلاؤ، سولومن آئی لینڈ وغیرہ شامل ہیں ۔ یہ چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں اور ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کے نام سے بھی لوگ واقف نہیں۔ دوسری طرف امریکی اتحادی برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان اور بھارت نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا۔ فلسطینی صدر کے بقول عالمی برادری کی حمایت امریکی صدر کے لیے دھچکا ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ بپھرے ہوئے بیل کی طرح سب سے سینگ اڑانے اور اپنے کھروں سے دھول اڑانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان کو اپنے گھر میں موجود یہودیوں کو بھی خوش رکھنا ہے، یہودی داماد کے توسط سے اسرائیل ٹرمپ کا سمدھیانہ ہے۔ ویسے بھی یہ کوئی راز نہیں کہ ہرامریکی حکمران کو کامیابی کے لیے یہودیوں کی حمایت درکار ہوتی ہے۔