پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافے کی تیاری 

251

حکومت نے گزشتہ ساڑھے چار برس میں ملکی اور غیر ملکی قرضے چڑھانے میں ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ حکمرانوں کو اطمینان ہے کہ یہ قرض قوم بھگتے گی ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ قرضوں کا محض سود چکانے کے لیے بھی مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف سرکاری اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت کے پاس پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی وغیرہ ہی ایسے شعبے ہیں جن کی قیمت میں آئے دن اضافہ ہو رہاہے۔ پیٹرول و مٹی کے تیل وغیرہ کی قیمتیں ہر ماہ بڑھائی جارہی ہیں اور اب یہ خبر ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں 7روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ خدشہ ہے کہ ایسی تجاویز حکمران بخوشی منظور کرلیتے ہیں ۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو اضافہ تجویز کیا جاتا ہے حکمران ازراہ عنایت اس میں تھوڑی سی کمی کر کے احسان دھرتے ہیں ۔ کیا حکمرانوں کو اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ صرف پیٹرول کی قیمت بڑھانے سے ہر شے کی قیمت بڑھ جاتی ہے حتیٰ کہ ان چیزوں کی بھی جن کا براہ راست کوئی تعلق پیٹرول سے نہیں ہوتا۔ ڈیزل سے چلنے والے ذرائع نقل و حمل بھی جو اشیا لاتے ہیں ان کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ تو ضرور ی ہو جاتا ہے اور یہ اضافہ قیمت میں اضافے کے تناسب سے نہیں، مرضی سے ہوتا ہے۔ پیٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمت بڑھانے سے زرعی اجناس بھی مہنگی ہو جاتی ہیں کہ اجناس کو منڈی تک لانے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ غرض ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے اور عوام مزیدبدحال ہو جاتے ہیں ۔ ان کے پاس سوائے خوش کن اعلانات کے کچھ نہیں ہوتا کہ پاکستان کی معیشت ترقی کررہی ہے، مہنگائی پر قابو پالیا گیا ہے اور بجلی اتنی وافر ہے کہ اب کہیں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی چند گھنٹے ہی میسر ہوتی ہے۔ بجلی کے حوالے سے کراچی الیکٹرک نے تو لوٹ مار کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھروں کو لاکھوں روپے کا بل بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کے الیکٹرک میں سارے ہی نابینا بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اس پر ستم یہ کہ اگر بل ٹھیک کروانے جاؤ تو مطالبہ ہوتا ہے کہ پہلے بل ادا کرو اس کے بعد دیکھی جائے گی۔ یہ رویہ کے الیکٹرک سے پہلے کے ای ایس سی کا بھی تھا، شاید اسی سے کے الیکٹرک نے سیکھا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ کے الیکٹرک نے اضافی بل کے خلاف درخواست لینے سے بھی انکار کردیا اور یہی کہا کہ پہلے بل جمع کراؤ پھر بات ہوگی۔ اس سے بڑا ستم یہ ہے کہ بجلی صارفین کی داد رسی کے لیے کوئی نہیں۔ محتسب اعلیٰ کی بات بھی نہیں سنی جاتی۔ ایسے میں حکمرانوں کے خلاف بددعائیں نکلیں گی جس کی انہیں کچھ پروا بھی نہیں کہ آج تو آرام سے گزرتی ہے، عاقبت کی خبر خدا جانے۔