ہمارے یہ رہبر!

680

ناصر حسنی
ہمارے سیاست دان ’’لالٹین اٹھانے‘‘ میں جو یدطولیٰ رکھتے ہیں اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کی مہارت سے استفادہ فریق ثانی اٹھاتا ہے۔ کون جانے! اس کا سبب کیا ہے؟ یہ قوم کی بدنصیبی ہے یا سیاست دانوں کی نااہلی اور جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس نے نااہلی میں پی ایچ ڈی کرکے نمایاں پوزیشن حاصل کرلی ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو عاشق رسول کہتے ہیں، صوم و صلوٰۃ کے پابند بھی ہیں مذہبی رجحان رکھتے ہیں مذہب کے شیدائی بھی سمجھے جاتے ہیں مگر ان کے قول و فعل اس کی تکذیب کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف جب سے نااہل ہوئے ہیں انہیں اپنے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ انہیں اپنی حکومت بھی دکھائی نہیں دیتی، انصاف خاک دکھائی دے گا۔ ایک شخص ان کی حکومت کو مفلوج کردیتا ہے کیوں کہ اسے اس حقیقت کا ادراک ہے کہ حکومتی ٹولہ نااہل ہے، نالائق ہے، مکالمے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا، جہاں مکالمہ بے معنی ہو جائے وہاں آسمان کبوتروں سے خالی ہوجاتا ہے، وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھا کہ نااہلوں کا یہ ٹولہ اپنی مدد کے لیے فوج کی دہلیز پر سرنگوں ہوجائے گا اور حکومت کے بارے میں خوش گمانی کا احساس رکھنے والے لاتعلق ہوجائیں گے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بدنصیبی یہ بھی ہے کہ وہ خود کو ذوالفقار علی بھٹو کے پیکر میں ڈھالنا چاہتے ہیں، شاید انہیں اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ کوئی بھی آدمی کسی دوسرے آدمی کے وجود میں نہیں سما سکتا۔ ہر شخص کی اپنی سوچ ہوتی ہے اور سوچنے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔
میاں نواز شریف بھٹو مرحوم سے بہت متاثر تھے، اتنے متاثر کہ خود کو بھٹو سمجھنے لگے اور بھٹو مرحوم کے نقش قدم پر چلنے لگے، حالات اور واقعات نے ایسی آسانیاں اور سہولتیں بھی فراہم کیں کہ وہ بھٹو مرحوم کے نقش قدم پر چل سکیں مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی کسی کے نقش قدم پر تادیر گامزن نہیں رہ سکتا۔ بڑے میاں صاحب کے قدم اس وقت ڈگمگانے لگے جب انہوں نے مریم نواز کو بے نظیر بھٹو بنانے کا تہیہ کیا اس موقعے پر دوست اور خاندان والے بھی ان کی ہم نوائی نہ کرسکے۔ عدلیہ نے انہیں نااہل قرار دیا تو سیاسی مبصرین نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو وزیراعظم کے روپ میں دیکھنا شروع کردیا۔ توقع تھی کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے سبب خالی ہونے والی نشست پر اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو میدان میں اتاریں گے مگر میاں نواز شریف نے مرد اول بننے کا عزم کرلیا۔ وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہونے کے باوجود وہ وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ سو، انہوں نے خاتون اول کلثوم نواز کو اپنی نشست پر نامزد کردیا حالاں کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ کلثوم نواز بیمار ہیں، لندن میں زیر علاج ہیں، حلف اٹھانے کے قابل نہیں، یہ فیصلہ مریم نواز کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کرگیا یہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان تھا۔ مریم نواز نے انتخابی مہم تنہا سر کرنے کا فیصلہ کرلیا اور پھر حمزہ شریف اور دیگر افراد کو دور رکھ کر اپنی سیاسی صلاحیتوں کو منوالیا۔ ان دنوں مذہبی جماعتیں میاں نواز شریف کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے تخت کا تختہ مذہبی جماعتوں نے کیا تھا اور بھٹو صاحب کو بھٹو مرحوم بنادیا۔ میاں نواز شریف، بھٹو کے انجام سے تو بچ جائیں گے مگر اپنی سیاسی زندگی کو شاید نہ بچاسکیں۔ یہ جو سیاسی جماعتیں میاں برادران کے خلاف متحد دکھائی دے رہی ہیں، فریب نظر کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ سیاست دان اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں گرنا گوارا نہیں کرسکتے۔ زرداری صاحب، قادری صاحب کے کاندھوں پر بیٹھ کر ایوان اقتدار میں گھسنا چاہتے ہیں مگر قادری صاحب گھس بیٹھیوں کی نیت سے آگاہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی کس کا نصیب بنتی ہے۔