ایک امریکا نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا۔ متعد اسلامی ممالک نے اسے فلسطین کا دارالحکومت قرار دے دیا۔ امریکا نے کہا کہ یہ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے۔ مسلم ممالک نے کہا کہ اس فیصلے سے جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ کوئی ذرا اس فرق کو بھی دیکھے کہ ایک امریکا نے کسی سے پوچھے بغیر، کوئی اجلاس بلائے بغیر اور دنیا کے کسی بھی ملک سے رائے لیے بغیر پوری دنیا کے سامنے کھل کر اعلان کیا کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا۔ دوسری جانب 57 اسلامی ممالک کی تنظیم دنیا سے اپیل کر رہی ہے کہ ’’دنیا‘‘ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے۔ شاید اسی موقعے کے لیے کہا گیا ہے کہ
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی ایسی حرکت جو خلاف اسلام ہو، مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہو یا ان پر زیادتی کے زمرے میں آتی ہو تو دنیا کے تمام مسلمانوں پر یہ بات فرض ہوجاتی ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس ظلم، زیادتی یا امتیازی سلوک کے خلاف دنیا بھر میں نہ صرف احتجاج کریں بلکہ جب تک حالات معمول پر نہ آجائیں اس وقت تک سینہ سپر رہیں لیکن اس بات سے بھی تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو مسلمان بیدار ہونے کے لیے اور ظلم کو ظلم ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہوں اور ہنوز دلی دور است کا ورد کرتے ہوئے خواب غفلت ہی میں پڑے رہنا چاہتے ہوں تو کیا ان کی اس غفلت پر بھی کسی کے لب پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کرنی چاہیے؟۔
اسرائیل کے اطراف میں کوئی ایک آدھ ملک ہو تو پھر بھی بات قابل معافی تصور کی جاسکتی ہے لیکن جہاں بیسیوں ممالک اور کروڑوں عرب مسلمان اسرائیل کے اطراف موجود ہوں وہاں اسرائیل کی اتنی جرأت ہو کہ وہ جب چاہے عربوں کو مغلوب کرلے اور جب چاہے اڑوس پڑوس کے عرب ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کردے اور کوئی ایک ملک بھی اس کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے کی ہمت نہ کر سکے تو پھر بے شک دنیا لاکھ اسرائیل کی مذمتوں پر مذمتیں کرتی رہے، اسرائیل کا بال بیکا نہیں کیا جاسکتا۔
ستاون اسلامی ممالک کس دنیا سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ امریکا کو مجبور کریں کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردینے کا فیصلہ واپس لے اور پائیدار امن کے لیے بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کرے۔ کیا’’57‘‘ اسلامی ممالک اس ’’دنیا‘‘ کا بتانا بھی پسند کریں گے جس سے وہ درخواست گزار ہیں؟۔ کبھی اِن 57 ممالک نے اس بات پر بھی غور کیا کہ ’’ایک‘‘ امریکا کس اساس پر یہ فیصلہ کر رہا ہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت بیت المقدس ہوگا اور وہ کیا کمزوری ہے جس کی بنیاد پر 57 اسلامی ممالک ’’دنیا‘‘ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر درخواست گزار ہیں کہ خدا کے لیے امریکا کو اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کریں؟۔ اس کا جواب صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ایک امریکا یہ فیصلہ اس لیے کرسکتا اور منواسکتا ہے کہ اس کے پاس طاقت اور وسائل ہیں۔ اور 57 اسلامی ممالک اس لیے دنیا کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں کہ وہ سارے کے سارے بے پناہ وسائل رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو ’’طاقت‘‘ بنانے کے لیے تیار نہیں۔ علامہ اقبال نے کتنی سچی بات کہی ہے کہ
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
دنیا بھر کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا سبب یہی ہے کہ انہوں نے ’’شمشیر و سناں‘‘ کا درس بھلاکر ’’طاؤس و رباب‘‘ کو اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات الم نشرح ہوجائے گی کہ ہم پھر مغلیہ دور کے اس آخری حصے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں تلواریں میان میں رکھ دی گئی تھیں اور جام و جم کی محفلیں سجادی گئی تھیں۔ تحقیق و جستجو ختم ہوگئی تھی اور ایک سے ایک خوبصورت اور منفرد عمارت بنانے کا سودا سر میں سما گیا تھااور یہ شوق ان کی تباہی و بربادی و ہلاکت کا سبب بنا۔ آج پھر وہی دور لوٹ کر آگیا ہے۔ جس عرب ملک کی جانب نگاہ دوڑائی جائے ہر جانب ایک سے ایک بلند و بالا عمارت بنانے کا خبط سوار ہے لیکن کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ دشمن کے خلاف وہی ہتھیار و اسباب بہم کریں جو دشمن کے پاس ہیں بلکہ اس سے بھی سوا کریں تاکہ دشمن کو دھمکایا جا سکے۔ یہ سارے اسباب خرید کر نہیں حاصل کیے جاسکتے۔ جو ملک آپ کو ہتھیار دے گا وہ کبھی آپ کو اتنا طاقتور دیکھنا پسند نہیں کرسکتا کہ کل آپ اس کو آنکھیں دکھا سکیں اور اس کے لیے بلائے جان بن سکیں۔ اس کے دیے ہوئے ہتھیار اس کے مقصد کی تکمیل کے لیے ہی ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان ہتھیاروں کو دینے والے ممالک کی مرضی و منشا کے خلاف استعمال میں لانے کی کوشش کرے تو ہوائی جہاز رنوے کو، بحری جہاز پانی کو اور زمین پر دوڑنے والی مشینری زمین کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتی۔ جو ہتھیار بیچتے ہیں وہ ہتھیاروں کو بھی اپنا پابند بناکر رکھا کرتے ہیں مگر یہ بات کوئی بھی سمجھنے کے لیے تیار و آمادہ نہیں۔
حال ہی میں عرب اسلامی ممالک نے 41 ممالک سے زیادہ ایک مشترکہ فوج تیار کی ہے جس کو دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے کھرب ہا کھرب ڈالرز ادا کیے ہیں۔ اگر 41 ممالک کی وہ فوج جو دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود امریکا کی اس بات پر کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنایا جائے، دم سادھ کر بیٹھی ہوئی ہے تو پھر مجھے یہ بتایا جائے کہ 57 اسلامی ممالک کس دنیا اور کس منہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امریکا کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کریں۔ اتنی بڑی فوج کے رکھنے کے باوجود اگر آپ اسرائیل سے فلسطین کو آزاد نہیں کراسکتے، بیت المقدس کو فلسطین کے حوالے نہیں کر واسکتے تو دنیا اب اتنی بھی پاگل نہیں کہ وہ آپ کی جنگ لڑے۔
’’شمشیر و سناں اول‘‘ کا مطلب عام طور پر مسلمانوں نے یہی نکالا ہے کہ دنیا میں جنگ و جدل کا سماں برپا رکھا جائے۔ در اصل ’’شمشیر و سناں اول‘‘ جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ہر وہ عمل ہے جس سے کسی بھی ملک کی سرحدوں کاتحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہتھیار وہی ہوتا ہے جس کی تخلیق آپ کے اپنے ہاتھوں ہوئی ہو۔ دنیاکے جتنے بھی وہ ممالک جو طاقت کے لحاظ سے مضبوط ہیں ان کے پاس ان کے اپنے ایجاد کیے ہوئے ہتھیار ہیں۔ خریدے ہوئے ہتھیاروں سے صرف اور صرف شکار کھیلا جاسکتا ہے خواہ وہ جانوروں کا ہو یا انسانوں کا۔ اس لیے کہ کوئی ملک بھی آپ کو وہ ہتھیار بیچ ہی نہیں سکتا جو خود اس کی تباہی و بربادی کا سبب ہو۔
یاد رکھیے کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کیے۔ ہر حملے میں وہ ایک نیا ہتھیار لے کر حملہ آور ہوا کرتا تھا۔ ترقی و جستجو کا یہی سلسلہ جب تک مسلمانوں میں رائج رہا، مسلمان دنیا پر غالب رہے لیکن جب مسلمان ’’طاؤس و رباب‘‘ میں پڑگئے تو ذلت و خواری کا طوق ان کے گلے پڑگیا۔امریکا سے گلا اور دنیا کے آگے ہاتھ مت جوڑیں اور اپنی اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالیں۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی موقعے کے لیے کہا ہے کہ
یہ آبِ جو کی روانی یہ ہمکنارئ خاک
مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ
اِدھر نہ دیکھ اُدھر دیکھ اے جوان عزیز
بلند زورِ دروں سے ہوا ہے فوارہ