دِل حویلی

381

اس شاعر بے بدل میرتقی میر نے کہا تھا
جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا
بے وزن ہونے کا خدشہ ہے ورنہ ’’روزگار‘‘ کی جگہ ’’گلو بلائزیشن‘‘ لکھ کر دیکھیے شعر کی معنویت بے پناہ ہوجائے گی۔ صدر ڈونلڈٹرمپ جن دنوں نئے نئے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دنوں پاکستان میں سیہون میں ایک خوفناک دھماکا ہوا تھا۔ اس دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں سوئیڈن میں دھماکے پر افسوس ہے۔ صدر ٹرمپ کا سیہون کو سوئیڈن باور کرنے کی وجہ محض صوتی یکسانیت نہیں اس میں گلوبلائزیشن کا اعجاز بھی شامل ہے۔ ہائے کیا دلفریب فاصلے ہوں گے جب کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ خبر مہینوں میں پہنچتی تھی۔ سب بے خبری کی جنت میں شاد آباد تھے۔ بی بی سی واحد ذریعہ جھوٹ اور بے قراری تھا۔ دس بجے ٹی وی بند ہوجایا کرتا تھا۔ نوبجے صرف ایک خبرنامہ آیا کرتا تھا۔ حاکم وقت کی پسند، منتخب خبروں سے آراستہ۔ اس اہتمام کے ساتھ کہ عوام کو کچھ پتا نہ چلے۔ خبر اور عوام کے درمیان فاصلے نہ گھٹیں۔ بقول امجد اسلام امجد
دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے
آج ہم رابطوں میں تو ہیں لیکن محبتوں میں نہیں ہیں۔ وہ نزدیکیاں ہیں کہ ساعتیں بنجر اور ہر پل جینے سے بھاگتا ہے۔ قربتیں ظالم کے ظلم میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ایک براعظم کے حکمران کی پالیسیاں دوسرے براعظم کے لوگوں کی زندگیاں جہنم بنارہی ہیں۔ شہر ہیں کہ کدورتوں کے جنگل۔ نفرتیں، عصبیتیں، عداوتیں۔ ایک خبرپل بھر میں پھیل جاتی ہے اور ہنستے بستے شہر میں آگ لگا دیتی ہے۔ صدرٹرمپ امریکا میں چھینکتے ہیں نزلہ پاکستانیوں کو ہونے لگتا ہے۔ جوشاندے کے اشتہار پاکستانی ٹی وی چینلوں پر چلنے لگتے ہیں۔ وقت اتنا تیز رفتار ایک پل میں جگ بیت جائیں۔ وہ بھی کیا زمانے ہوں گے جب دنیا سمٹی ہوئی تھی، دنیا شر میں لپٹا عالمی گاؤں نہیں دل حویلی تھی۔ دنیا کی طلب کم اور بہت ہی کم تھی۔ کتنا ہی وقت گزر جائے وہی مناظر، وہی دھرتی اور وہی لوگ۔ جون ایلیا نے اس ٹھیرے ہوئے وقت کی کیا ہی خوب عکاسی کی ہے۔
سال ہا سال اور اک لمحہ
کوئی بھی تو نہ ان میں بل آیا
خود ہی ایک در پہ میں نے دستک دی
خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا
اس پری کا چہرہ آج بھی نظر میں ہے جس کا حادثہ گلوبلائزیشن کی علامت تھا۔ لیڈی ڈیانا نسلاً انگریز تھی۔ اس کے بوائے فرینڈ کا تعلق مصر سے تھا۔ ایکسیڈنٹ کے وقت وہ جس کار میں سوار تھی وہ جرمنی کی بنی ہوئی تھی۔ اس کار کو ہالینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک ڈرائیور چلا رہا تھا۔ یہ حادثہ ایک فرانسیسی سرنگ میں پیش آیا۔ ان کا تعاقب کرنے والے صحافیوں کا تعلق اٹلی سے تھا جو جاپانی موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ زخمیوں کا معائنہ ایک پر تگالی ڈاکٹر نے کیا۔ انہیں برازیل کی بنی ہوئی دوائیں دی گئیں۔
پہلے جو فریضہ فاہیان اور ابن بطوطہ جیسے سیاح اور چنگیز خان اور سکندر اعظم جیسے فاتح انجام دیا کرتے تھے اب وہ میڈیا انجام دے رہا ہے فرق یہ ہے ان کا سفر سست رفتار اور خطرناک تھا میڈیا کا تیز رفتار اور زہر ناک ہے۔ فاتح اور مفتوح پہلے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوا کرتے تھے لیکن اتنا نہیں جتنا آج کل۔ جینز، کوک اور آلود دنیا میں جہاں جائیے ان سے مفر نہیں۔ جینز ایک موٹا اور بد وضع لباس ہے۔ موٹا جھوٹا پہننا پہلے غربت کا استعارہ تھا۔ اب بڑے بڑے دھبے پڑی، مسلی ہوئی جینز جدید اور دنیا میں سب سے زیادہ پہنا جانے والا پہناوا ہے۔ پہلے مہمانوں کی تواضع شربت بادام، شربت گلاب، شربت فالسہ اور دیگر پھلوں کے مشروبات سے کی جاتی تھی اب پیپسی اور کوک جیسے تیزابی مشروب پیش کیے جاتے ہیں۔ آلو پہلے آلو گوشت اور آلو کے بھرتے تک محدود تھا اب جابجا آلو کے فرنچ فرائز اور چپس کے اسٹالز لگے ہیں جسے دیکھو ابلے ہوئے آلونوش جاں کررہا ہے حالاں کہ ذائقے کے اعتبار سے یہ آخری چیز ہونی چاہیے جو انسان با امر مجبوری کھانے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔
گلو بلائزیشن کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ بیٹھکیں اجڑ گئیں جو سر شام جمتی تھیں جہاں دنیا بھرکی باتیں ہوتی تھیں اور لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ سے آگاہ ہوتے تھے۔ وہ قصے کہانیاں سنی اور سنائی جاتی تھیں جن میں ہمارے اپنے رنگ تھے، ہماری تہذیب وثقافت اور آداب تھے اب تو اس ایڈیٹ بکس نے جسے ٹی وی کہتے ہیں دنیا بھر کے تماشے جمع کردیے ہیں۔ ہم اپنی کہانیوں کو بھولتے جا رہے ہیں۔ ترکی کے ایک ناول نگار اور بان پامک کے ناول snow میں اس کا ایک کردار رستم وسہراب کی کہانی سناتا ہے اور پھر کہتا ہے ’’میں نے یہ کہانی تمہیں اس لیے نہیں سنائی کہ میری زندگی میں اس کی کوئی اہمیت ہے یا میری زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے بلکہ یہ بتانے کے لیے سنائی ہے کہ اب اسے بھلادیا گیا ہے۔ ہزار سال پرانی یہ کہانی فردوسی کے شاہنامے کی ہے۔ ایک وقت تھا جب تبریز سے استنبول اور بوسنیا تک‘ ہر ایک کو یہ کہانی زبانی یاد تھی۔ وہ جب بھی اسے دہراتے تھے اپنی زندگی میں بامعنی پاتے تھے مگر اب چوں کہ ہم مغرب کے طلسم میں گرفتار ہیں ہم اپنی کہانیوں کو بھول گئے ہیں۔ ہماری نصابی کتابوں سے ایسی تمام پرانی کہانیاں نکال دی گئی ہیں۔ ان دنوں استنبول میں ایک بھی کتب فروش ایسا نہیں جس کے پاس فردوسی کا شاہنامہ موجود ہو‘‘۔
ابلاغ کے جدید ذرائع نے نامہ بر اور خطوط کی اہمیت ختم کردی ہے۔ موبائل فون، ایس ایم ایس، فیس بک، ٹیوٹر، واٹس اپ نے انتظار کی لذتوں اور کیفیات سے لوگوں کو ناآشنا اور محفل میں تنہا کردیا ہے جسے دیکھو بھری محفل میں موبائل فون میں گم۔ بعض ایس ایم ایس تو ایسے ہوتے ہیں کہ طبیعت پھڑک اٹھتی ہے۔ ایک ریسٹورنٹ میں امریکی صدر اوباما اور ٹرمپ بیٹھے گپیں مار رہے تھے۔ کسی نے پوچھا ’’آپ دونوں یہاں کیا کررہے ہیں۔ اوباما نے جواب دیا ہم دونوں یہاں تیسری عالمی جنگ کے امکان پر بات کر رہے ہیں۔‘‘ آدمی نے پو چھا ’’اس جنگ میں کیا ہوگا؟‘‘ اوباما نے جواب دیا ’’اس جنگ میں چالیس لاکھ مسلمان اور ایک خوب صورت لڑکی ماری جائے گی۔‘‘ آدمی نے گھبرا کر جلدی سے پوچھا ’’وہ لڑکی کون ہے؟‘‘ ٹرمپ نے اوباما سے کہا ’’دیکھا میں نہ کہتا تھا کسی کو مسلمانوں کی پروا نہیں۔‘‘
اس گلو بلائزیشن نے دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت دی ہے جس نے غریب اور کمزور ملکوں کو مزید غریب اور کمزور بنادیا ہے۔ دنیا ایک عالمی برادری کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے لیکن اس سے غریبوں کی غربت، دکھوں اور مصائب میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ ایک نئے انداز کی غلامی اور فریب ہے۔
وقت دے کر فریب آزادی
پاؤں کی بیڑیا بدلتا ہے