بے نظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کا المیہ

386

ستائیس دسمبر ملکی تاریخ اور بھٹو خاندان کے لیے ایک المناک دن ہے اس روز پیپلزپارٹی کی سربراہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو لیاقت باغ کے باہر ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئیں آج ان کی شہادت کو دس سال مکمل ہوگئے ہیں اور محترمہ بے نظیربھٹو کی دسویں برسی منائی جارہی ہے‘ بلاشبہ وہ پاکستان کی سیاست کا بہت ہی اہم باب تھیں‘ ملکی اور عالمی سطح پر ان کی سیاسی شہرت‘ مقبولیت اور سیاسی پہچان ملک کے دیگر سیاسی رہنماؤں کی نسبت بہت زیادہ تھی ان کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی بھی کروٹ لے چکی ہے‘ کہا گیا کہ قاتلوں کو جانتے ہیں مگر ان کندھوں کو تلاش کر رہے ہیں جن پر رکھ کر بندوق چلائی گئی یہ کندھے آج تک تلاش نہیں کیے جاسکے اور پیپلزپارٹی کے پانچ سال کا اقتدار بھی قاتل تلاش کرنے میں ناکام رہا اور پارلیمنٹ بھی‘ پارلیمنٹ میں بے نظیر بھٹو قتل کے معاملے پر بحث نہیں کی ہے رحمن ملک بہت کریڈٹ لیتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی سینئر لیڈر شپ ان کے کسی دعوے کی حمایت نہیں کرتی۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کے محرکات جاننا ہر پاکستانی شہری کا حق ہے کہ کیوں‘ کس نے اور کن مقاصد کے لیے ملک کی ایک مقبول سیاسی رہنماء کو قتل کیا گیا۔ بے نظیر قتل کیس میں عدالت بھی اپنا فیصلہ سنا چکی ہے اور متعدد ملزم بری کیے جاچکے ہیں‘ کچھ کو سزا ہوئی ہے اور پرویز مشرف اس کیس میں اشتہاری قرار پائے ہیں جب کہ پرویز مشرف کا موقف ہے وہ اس قتل میں ملوث نہیں ہیں تاہم یہ قتل انہی کے دور میں لہٰذا جواب دہی بھی ان کی حکومت ہی کی بنتی ہے۔
بے نظیر بھٹو جب قتل ہوئیں تو اس وقت ملک ایک بہت ہی گہرے بحران میں گھرا ہوا تھا‘ ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی‘ میڈیا پابندی کا سامنا کر رہا تھا‘ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ ملک میں سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے کوشاں تھی‘ طویل جلاوطنی کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو واپس آئے تھے اور ملک میں بحران کی کیفیت تھی‘ لال مسجد آپریشن جاری تھا‘ لندن میں ملک کی سیاسی قیادت تبدیلی لانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی تھی، فاٹا میں امریکا نے مشرف کے ذریعے بہت اندر تک رسائی حاصل کرلی تھی مشرف کا یہی فیصلہ انہیں لے ڈوبا کہ پالیسی ساز نہیں چاہتے تھے کہ امریکا ہمارے اندر گھس بیٹھے لہٰذا مشرف کے اقتدار کے سامنے بند باندھنے کا فیصلہ ہوا۔ سچی بات ہے کہ عدلیہ بحالی کی تحریک مشرف کی غیر مقبولیت ماپنے اور حقیقی جائزہ لینے کا ایک بہانہ تھی ان تمام واقعات نے پرویز مشرف کو ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور کیا اور وہ بھاگے بھاگے دبئی پہنچے جہاں بے نظیر بھٹو سے ان کی طے شدہ ملاقات ہوئی جس کے لیے طارق عزیز ساری فضا تیار کر چکے تھے امریکی بھی جان چکے تھے کہ جنرل پرویز مشرف اب پاکستان میں غیر مقبول ہوچکے ہیں اور مستقبل کی حکمت عملی میں وہ امریکا کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوسکتے تو امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے نئے سیاسی افق کے لیے پاکستان میں ایک مقبول سیاسی چہرہ آگے لانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کا انتخاب کیا گیا، بے نظیر بھٹو سے جنرل پرویز مشرف کی باقاعدہ ڈیل کرائی گئی اور متحدہ قومی موومنٹ کو بھی اس ڈیل میں شامل کیا گیا اس ڈیل کے نتیجے میں جنرل مشرف نے یونیفارم اتار کر فوج سے ریٹائرمنٹ لی‘ اشفاق پرویز کیانی فوج کے سپہ سلار مقرر ہوئے‘ یہاں تک تو ڈیل کا ایک حصہ مکمل ہوتا ہے اگلا حصہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی تھا امریکی چاہتے تھے کہ وہ جو کام مشرف سے نہیں لے سکے یہ کام بے نظیر بھٹو سے لیا جائے‘ وہ کام کیا تھا؟ کام یہی تھا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت بھی پرویز مشرف سے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر رہے یہ بہت مشکل ٹاسک تھا‘ امریکیوں کی خواہش اچھی طرح سمجھ کر ہی بے نظیر بھٹو وطن واپسی پر تیار ہوئیں اور اٹھارہ اکتوبر کو تقریبا نو سال کے بعد وطن واپس آئیں‘ یقیناًیہ لمحہ ان کے لیے جذباتی بھی تھا اسی لیے طیارے سے باہر آتے ہوئے ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھی نکلے لیکن وطن واپسی تک تو سب کچھ ٹھیک تھا۔
ڈیل کا اگلا مرحلہ بہت ہی کٹھن تھا امریکیوں کی نظر اس وقت بھی ہمارے ایٹمی پروگرام پر تھی اور آج بھی ہے جنرل پرویز مشرف چوں کہ غیر مقبول ہوچکے تھے اورایک کمزور حکمران تھے اور انہیں مسلم لیگ قاف کی معاونت بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی تھی اسی لیے وہ بھی ایک مقبول سیاسی شخصیت کا تعاون چاہتے تھے لیکن جب بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد کراچی ائر پورٹ پر اتریں تو انہیں ایک بار پھر باور کرایا گیا کہ وطن واپس تو پہنچ گئی ہیں لیکن یہ مت بھولیں کہ حالات تلخ نہیں ہیں‘ حالات کی تلخی برقرار ہے ان کے وہ سیاسی مخالفین جو مشرف کے ساتھ ہونے کے باوجود اس ڈیل سے ناخوش تھے وہ کسی قیمت پر بھی انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع دینے کو تیار نہیں تھے بے نظیر بھٹو کے استقبال نے انہیں پریشان کردیا انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب اگلا دور پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو کا ہی ہے‘ ان قوتوں نے بھی لنگوٹ کس لیا‘ لیکن یہ آج تک علم نہیں ہوسکا کہ کارساز پر دھماکا کس نے کیا؟ دس سال پر محیط پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے دونوں ادوار بھی یہ بات جاننے میں آج تک ناکام رہے ہیں۔
اٹھارہ اکتوبر سے لے کر دسمبر تک‘ بے نظیربھٹو کے لیے یہ دو اڑھائی ماہ زندگی کے مشکل ترین ایام تھے وطن واپسی کے بعد کراچی سے اسلام آباد پہنچیں تو ایف ایٹ والے گھر کے باہر خاردار تاروں کے سایے میں مقید ہوکر رہ گئیں اس کے نتیجہ میں عوام سے رابطہ بالکل محدود‘ شاید انہوں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ہوگا پھر وہ لمحہ بھی آیا کہ جب دہشت گردی کے ایک واقعے میں لیاقت باغ میں وہ شہید کر دی گئیں گویا جو کام اٹھارہ اکتوبر کو نہیں ہوسکا وہ ستائیس دسمبر کو کردیا گیا بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے ملک میں ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی‘ ایڈیشنل آئی جی پنجاب چودھری مجید اس کے سربراہ بنائے گئے‘ وزارت داخلہ میں اس وقت اہم پوزیشن پر کام کرنے والے افسر وقار چوہان بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے‘ ایک کمیٹی پنجاب حکومت کی سطح پر بنی‘ اور اقوام متحدہ کی ایک ٹیم نے بھی پاکستان آکر اس اہم ترین کیس کی تحقیقات کیں‘ کوئی کہتا رہا کہ قاتل ایک تھا‘ کسی نے رائے دی کہ قاتل دو تھے‘ کسی نے کہا کہ فائرنگ نہیں ہوئی‘ اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ بم دھماکے اور فائرنگ میں ایک اشاریہ چھ سیکنڈ کا فرق تھا‘ ہسپتال میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز میں سے کسی نے نہیں کہا کہ گولی لگی ہے‘ لیکن جو ڈاکٹر علاج کرنی والی ٹیم کا حصہ نہیں تھا‘ اس کی رائے یہ تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بائیں کان کے نیچے کنپٹی پر انہیں گولی لگی ہے یہ تمام سوالات اور آراء ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہیں اور آج اس قتل کو نو سال کا عرصہ ہوچکا ہے ان نو سالوں میں ابھی تک یہ معما حل نہیں ہوسکا کہ کون اور کس سطح پر اس قتل میں ملوث تھا‘ اس قتل میں ایک بڑا ابہام ابھی تک حل نہیں ہوا‘ یا کم از کم پارٹی کارکنوں تک یہ سچ نہیں پہنچا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت گولی لگنے سے ہوئی یا گاڑی کا لیور لگنے سے ہوئی‘ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اپنی وطن واپسی کے بعد ملک کے حالات جس قدر خراب تھے‘ وہ ان سے اچھی طرح واقف تھیں‘ ستائیس دسمبر کو لیاقت باغ کے جلسے کے وقت بھی انہیں خطرات تھے اور انہی خطرات سے ایک رات قبل اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم تاج نے ان سے ان کے گھر میں ملاقات کی تھی اور خطرات کے بارے میں بتایا بلکہ زور دیا کہ جلسہ میں نہ جائیں
(باقی صفحہ 11 نمبر1)
بقیہ: میاں منیر احمد
لیکن اس ملاقات میں موجود رحمن ملک نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا‘ بی بی جلسے سے لازمی خطاب کرنے جائیں گی جلسہ سے خطاب کا پروگرام منسوخ نہیں ہوسکتا‘ اگلے روز کیا ہوا؟ جب بی بی کو حادثہ پیش آیا تو رحمن ملک اطلاع کے باوجود‘ کہ بے نظیر بھٹو کو زخمی ہوئی ہیں اور انہیں ہسپتال لے جایا جارہا ہے‘ وہ واپس آنے کے بجائے ایف ایٹ زرداری ہاؤس چلے گئے پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’وہ قاتلوں کو جانتے ہیں‘‘ لیکن اس کے باوجود اپنے پانچ سالہ اقتدار میں تمام تر اختیارات کے باوجود وہ قاتلوں کے نام بے نقاب نہیں کر پائے وہ کہتے رہے کہ’’ ہم جاننا چاہتے کہ قاتل کی بندوق کے لیے کندھا کس نے فراہم کیا بہر حال قاتل ملا اور نہ اسے کندھا فراہم کرنے والا بے نقاب ہوا اور پیپلزپارٹی کی حکومت کرپشن کے بدترین الزامات کے ساتھ اپنے پانچ سال مکمل کرکے رخصت ہوگئی اب پھر اگلے سال ملک میں عام انتخابات آئینی لحاظ سے متوقع ہیں عدالت ان کے قتل کے مقدمہ کا فیصلہ دے چکی ہے فیصلہ تو ہوگیا لیکن بے نظیر بھٹو کے بچوں کو انصاف نہیں ملا اگرچہ عدالت اپنا فیصلجہ سناچکی ہے لیکن پارٹی کے کارکن آج بھی رحمن ملک اور پارٹی کی لیڈر شپ سے سوال کرتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایف آئی آر نمبر214721 آج تک اس بات کی منتظر کیوں ہے کہ کب اس کے سینے پر لکھے ہوئے جرم کے حقیقی ملزم اپنے انجام کو پہنچیں گے۔