یہ کھیل اب بند کریں

317

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سے پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ کھلی اور چھپی حلیف رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سابق صدر آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کی دسویں برسی پر اپنے خطاب میں کہا ہے کہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کا اب ساتھ نہیں دیں گے۔ آصف زرداری کا یہ ایک جملہ ہی پاکستانی سیاست کی تمام بیماریوں کے اسباب بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ایک دوسرے کے غلط کاموں میں ساتھ دیا جائے اور نام جمہوریت کا لیا جائے۔ زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ ملک میں دوہرا معیار نہیں چلے گا۔ این آر او دینے کی کوشش ہوئی تو اس بار مقابلہ کریں گے۔ سازشی عناصر کے گندے انڈوں میں سے بچے نکل رہے ہیں، کوئی کپتان کوئی لیڈر بن رہا ہے۔ انہوں نے دھمکی بھی دی ہے کہ مخالفین اتنا ظلم کریں جتنا برداشت کرسکیں۔ زرداری صاحب نے آئندہ کا عزم تو ظاہر کردیا لیکن پہلے پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کا ساتھ کیوں دیا تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں، اسمبلی اور میڈیا میں بظاہر لڑتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کی ملی بھگت کا سارا نقصان عوام کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ خود پیپلز پارٹی کو بھی نقصان ہوا دونوں پارٹیوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا جو بے نظیر کے قاتل بھی کہلائے جاتے ہیں، پھر انہوں نے مسلم لیگ ن نے جنرل پرویز مشرف کو باعزت طریقے سے ملک سے جانے دیا، پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا۔ زرداری صاحب این آر او کی گنگا میں تو آپ بھی نہائے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی کے دوسرے لیڈر اور ایم کیو ایم بھی اس گنگا سے نکلی ہے۔ اب این آر او کے بجائے پی ایس پی والا فارمولا آگیا ہے، جس کو پاک صاف ہونا ہے وہ پی ایس پی میں چلا جاتا ہے۔ زرداری صاحب کے فرمودات سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے، این آر او آنے والا ہے، ان کا اعتراض بظاہر تو مسلم لیگ ن کے خلاف ہے لیکن ایسے معاملات میں اعتراضات کا وہی مقصد ہوتا ہے جو چوری پکڑے جانے پر جواب میں کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں بھی تو چوری کررہا تھا صرف مجھے کیوں پکڑا گیا۔ اب این آر او پر اعتراض کا مطلب یہ ہوا کہ صرف انہیں کیوں ہم بھی تو ہیں۔ اگر نواز لیگ کو این آر او ملے تو ہمیں بھی دیا جائے۔ یہ بات بھی اب کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ اے ڈی خواجہ کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے بہت سے لوگوں کے انکشافات سے زرداری صاحب کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے، اس کے علاوہ رینجرز نے بھی بعض ایسے مجرم پکڑے ہیں جن کے انکشافات کی زد میں سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا، زرداری صاحب اور شرجیل میمن بھی آرہے ہیں اور اب ایس بی سی اے کے ڈائریکٹر جنرل منظور قادر کی پاکستان حوالگی کی خبریں بھی عام ہیں۔ لہٰذا زرداری صاحب این آر او کی کوشش پر مقابلہ نہیں کریں گے بلکہ اپنا حصہ بھی مانگیں گے، یہ ان کی مجبوری بننے والی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ این آر او دے گا کون۔ مسلم لیگ ن کی عارضی حکومت تو نہیں دے سکتی، ایسا لگ رہا ہے کہ معاملات عدالت کے ذریعے طے ہوں گے، کسی کا کیس نرم بنایا جائے گا کہ عدالت کے سامنے کوئی راستہ ہی نہ رہے اور بعض کے کیسز ایسے بنائے جائیں گے کہ سزا سے بچ ہی نہ سکیں۔ یہ جو اسٹیبلشمنٹ کے سرکش عناصر کا حوالہ جنرل پرویز نے دیا ہے کہ بے نظیر کے قتل میں یہ سرکش عناصر ملوث ہوں گے تو یہی اسٹیبلشمنٹ تو کیسز تیار کرتی ہے۔ مقدمہ ہی کمزور بنایا جائے اس میں خود جھول چھوڑ دیا جائے تو واپسی کا راستہ خود نکل آتا ہے۔ پھر عدالت کو الزام دیا جاسکتا ہے نہ حکومت کو۔ ویسے جنرل پرویز صاحب نے 27 دسمبر ہی کواپنی صفائی پیش کی ہے جب آصف زرداری اور بلاول انہیں بے نظیر کا قتل کہہ کر پکار رہے تھے۔جنرل صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے سرکش عناصر کا لفظ یا جملہ استعمال کیا ہے حالانکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تو پوری کی پوری سرکش ہے اس میں کوئی سیدھا آدمی کہاں پنپ سکتا ہے۔ آصف زرداری صاحب نے سازشی عناصر کے گندے انڈوں میں سے بچ نکلنے کا ذکر کیا ہے، اپنی بہت ساری معلومات کی طرح ان کی یہ بات بھی کم علمی پر مبنی ہے گندے انڈوں سے بچے نہیں نکلتے۔ یہ انڈے کھانے کے لیے بھی استعمال نہیں ہوتے بس یہ کرپٹ سیاستدانوں پر مارنے کے لیے رہ جاتے ہیں، یہ دنیا بھر میں اسی کام کے ہوتے ہیں، اگر زرداری صاحب کی مراد کپتان کی پارٹی سے ہے تو کپتان کی پارٹی میں بہت سارے گندے انڈے زرداری صاحب کی پارٹی ہی سے گئے ہیں ان میں اہم ترین آدمی شاہ محمود قریشی ہیں۔ لہٰذا زرداری صاحب جتنے گندے انڈے اور ان کے بچے ہیں یہ سب آپ کے اور مسلم لیگ ن کے ہیں اور یہ سارے گندے انڈے اور گند آپ لوگوں کا اپنا پھیلایا ہوا ہے، اسے سمیٹنا بھی این آر او زدہ سیاستدانوں کا کام ہے۔ زرداری صاحب نے اپنی تقریر میں دھمکی بھی دی ہے۔۔۔ کہ مخالفین اتنا ظلم کریں جتنا برداشت کرسکتے ہیں۔ تو کیا ارادے ہیں موصوف کے۔۔۔ حکومت میں آگئے تو ظلم کریں گے؟ یہ کھیل کب تک چلتا رہے گا، ہمارے حکمران ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، پیٹھ میں چھرا بھی گھونپتے ہیں لیکن اس چھرے کا زخم عوام کو لگتا ہے، نقصان بھی انہیں کا ہوتا ہے، سابق پیر صاحب پگارا مرحوم کہا کرتے تھے کہ چوہے بلی کا کھیل شروع ہونے والا ہے، خدارا اس چوہے بلی کے کھیل کو بند کریں۔