احتساب کی ایک اور امید 

408

احتساب کی اصطلاح دنیا میں ہر جگہ مروج اور مستعمل ہے مگر اس اصطلاح کا حلیہ جس طرح ہمارے ہاں بگڑتا رہا ہے وہ شاید ہی کسی قوم کے حصے میں آیا ہو۔ دنیا کے کسی بھی نظام حکومت کو اس اصطلاح اور عمل سے جدا کیا ہی نہیں جا سکتا مگر جمہوریت کا ایک لازمی عنصر احتساب ہوتا ہے۔ جمہوریت اور احتساب ایک دوسرے کا نعم البدل ہرگز نہیں ہوتے جیسا کہ ہم نے ماضی میں ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگایا۔ جمہوریت میں ووٹ، اختیار اور اقتدار کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور احتساب اس کے متوازی دھارے کے طور ساتھ ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ احتساب جمہوریت کو زیادہ ذمے دار، دیانت دار اور متحرک بنائے رکھتی ہے جب کہ خود جمہوریت احتساب کے اداروں کے در ودیوار پر موٹے تالے اور مکڑی کے جالے چڑھانے کے بجائے مے خانے کی رونق کو بحال وبرقرار رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں بااثر طبقات نے اُلٹی زقند لگائی ہے۔ کبھی احتساب کے نام پر انتخابات کی بساط لپیٹی جاتی رہی اور کبھی عوامی احتساب کے نام پر احتساب کے اداروں کو قطعی غیر فعال اور موم کی ناک بنادیا جاتا ہے جیسا کہ گزشتہ عرصے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔
قمر زمان چودھری کی سربراہی میں جو احتساب بیور قائم تھا وہ احتساب کے سوا ہر کام کے لیے متحرک اور فعال تھا۔ ان کا تقرر ہی شاید احتساب نہ کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا۔ یہی رویے مقدس اصطلاحات کو مذاق بناتے ہیں اور ان اصطلاحات پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ جمہوریت اور اسلام کے ساتھ بھی ہمارے ہاں انہی رویوں کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ بے لاگ اور بلا تفریق احتساب کی خواہش دلوں ہی میں دم توڑتی رہی اس سے ایک مایوسی نے جنم لیا جو جمہوریت سے مایوسی کی شکل میں ڈھلتی رہی۔ عوام نے یہ تصور کرلیا کہ جمہوریت میں احتساب ممکن نہیں اور اس کے لیے ایک سخت گیر مسیحا کا انتظار کرتے رہے۔ ایران سے چین تک، برطانیہ سے ملائیشیا تک بے لاگ احتساب کی کوئی بھی صورت جہاں نظر آئی ہمارے ذہنوں میں ایک محتسب اور خوابوں کے شہزادے کے خدوخال اُبھرتے ڈوبتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک دور میں ایک شاہراہ کی تعمیر میں بدعنوانی کے جرم کے مرتکب ٹھیکیدارکو اسی سڑک پر برسرعام سزائے موت دینے کے افسانے کے حوالے سے عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین کی مثالیں بھی زباں زد عام رہیں۔ امام خمینی تو مدت تک احتساب کے لیے تڑپتے دلوں کے رول ماڈل رہے ہیں۔ جمہوریت اور احتساب کو باہم متضاد پا کر ہی لوگ کسی غیر سیاسی، کسی جرنیل، کسی ڈکٹیٹر اور ٹیکنو کریٹ اور عدل سے وابستہ مسیحا کے لیے سراپا انتظار رہے۔
احتساب کی کتاب کو بند کرنے والے جمہوری حکمرانوں نے جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی۔ ایسے میں چیرمین قومی احتساب بیوروجسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے پاناما اور برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم 435پاکستانیوں کی آفشور کمپنیوں کی تحقیقات کاحکم دیا۔ جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کسی قسم کے دباؤ اور سفارش کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ایس ای سی پی اور ایف آئی اے کو ان کمپنیوں کی معاونت حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پاناما لیکس ایک عالمی اسیکنڈل ہے جس میں بیرونی ملک دولت کے انبار کی نشان دہی کی گئی تھی۔ اس اسکینڈل کے سامنے آتے ہی کئی ملکوں میں سیاسی بھونچال آنا شروع ہوئے اور کئی حکمرانوں کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ میاں نوازشریف کے صاحبزادوں کے نام بھی چوں کہ اس فہرست میں تھے اس لیے پاکستان میں بھی یہ مسئلہ ایک طویل سیاسی کشمکش کی بنیاد بن گیا اور اس دوران شروع ہونے والی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں وزیر اعظم میاں نوازشریف کو محرومِ اقتدار ہونا پڑا۔ عمران خان اور شیخ رشید احمد نے مقدمے کے دوران اپنا فوکس میاں نوازشریف پر رکھا جب کہ مقدمے کے ایک اور فریق امیر جماعت اسلامی سراج الحق آفشور کمپنیوں کے تمام مالکان کی تحقیقات اور سزا دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔ اب قومی احتساب بیورو نے ان تمام آفشور کمپنیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ آفشور کمپنیاں رقم کی منتقلی اور اسے محفوظ بنانے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ ہر آفشور کمپنی کا قیام از خود کوئی برائی نہیں بلکہ جو معاملہ قابل اعتراض ہے وہ ان ان کمپنیوں کے نام پر کمائی جانے والی دولت اور اس کے ذرائع ہیں۔ یعنی دولت کن ذرائع سے کمائی گئی ہے۔ جب حکمران کی دولت کا ڈھیر دریافت ہوتا ہے تو یہ سوال اُٹھنا لازمی امر ہوتا ہے کہ یہ دولت کس ذریعے سے کمائی گئی؟ کہیں اس میں عوام اور ریاست کی دولت بھی شامل تو نہیں؟ منشیات، اغوا برائے تاوان، کمیشن، بھتا خوری اور ناجائز طریقوں سے کمایا جانا والا پیسہ تو شامل نہیں؟۔
پاکستان گزشتہ دہائیوں میں کرپشن میں لتھڑ کر رہ گیا ہے۔ ملک میں ناجائز ذرائع سے دولت کمانا ایک رواج اور ریت بن گیا ہے۔ جس کے باعث ملک کی معیشت روز بروز خراب ہوتی چلی گئی مگر حکمران طبقات اور افراد معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط ہوتے رہے۔ حکمران طبقات میں شامل کئی افراد دنیا کے امیر ترین انسانوں کی فہرست میں درجہ بہ درجہ اوپر ہوتے چلے گئے اگر حالات اسی رخ چلتے رہتے تو کسی دن ہمارا کوئی لیڈر اس فہرست کے پہلے نمبر پر بھی پہنچ جاتا اور شاید اس وقت ملک میں عام آدمی معاشی بدحالی کے باعث ہڈیوں کے ایک ڈھانچے کی صورت اختیار کر گیا ہوتا کیوں کہ جس ملک میں ایک مخصوص اور ملکی وسائل پر قابض طبقہ تیزی سے دولت کے کوہ ہمالیہ جمع کرے اس ملک ومعاشرے کے بے وسیلہ لوگ افریقا کے قحط زدہ باشندوں کی طرح زندہ لاشوں اور چلتے پھرتے ڈھانچوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ملک میں ناجائز ذرائع سے کمایا جانے والا پیسہ مختلف انسانی اسمگلروں اور دوسرے طریقوں سے بیرون ملک منتقل کیا جاتا رہا۔ ملک کے وسائل اور معیشت کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کی ہمہ گیر تحقیقات ناگزیر ہے۔