قصہ ایک ’’باس‘‘ کا

617

ابھی چند روز پہلے کی بات ہے۔ ایک بہت بڑے قومی بلکہ بین الاقوامی ادارے کی جانب سے ایک بہت چھوٹا سا دعوت نامہ ملا۔ دعوت نامہ پڑھ کرہم پر کھلا کہ اب ہم عمر کے ایک خاص حصے میں داخل ہو گئے ہیں۔ اُس حصے میں جہاں آدمی کسی کام کا نہیں رہتا۔ جب آدمی کسی کام کا نہیں رہتا تو اُسے کام تھمانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ البتہ مشورے مانگنے سے پرہیز نہیں کیا جاتا۔ سو، اہلِ ادارہ ہم سے مشوروں کے طالب تھے۔ ’مشاورتی اجلاس‘ میں ادارے کے ایک انتہائی اہم شعبے کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ لینا تھا۔ جائزہ لے کر تجزیہ کرنا تھا۔ تجزیہ کرکے آئندہ اہداف طے کرنے تھے اور ان اہداف کے حصول کے لیے نئی نئی راہیں سُجھانی تھیں۔ القصہ مختصر ہمیں بھی ایک مشہور حکایت کے اُس روایتی ’’گاما‘‘ کا کردار ادا کرنا تھا جس کے پاس گاؤں کے سب لوگ اپنے اپنے سوالوں کا جواب حاصل کرنے جایا کرتے تھے۔ بے چارا ’گاما‘ سوال سن کر گاہ روتا تھا، گاہ ہنستا تھا۔ روتا یوں تھا کہ اب گاؤں میں، بجز اُس کے، کوئی ’گاما‘ نہیں بچا تھا، جس سے لوگ اپنے سوالوں کے جواب جانیں۔ ہنستا اِس بات پر تھا کہ بہت سے سوالوں کے جواب وہ بھی نہیں جانتا تھا۔
پس ہم نے رختِ سفر باندھا اور ’’گاما پہلوان‘‘ بن کر مشاورتی اکھاڑے میں کود پڑے۔ ملک بھر سے ادارے کے نوجوان مندوب آئے ہوئے تھے۔ باقاعدہ اجلاس شروع ہونے میں ابھی وقت باقی تھا۔ موقع سے فائدہ اُٹھا کر اجلاس کے میزبان نے مہمان کا تعارف کچھ ایسے الفاظ میں کرایا، جس سے مندوبین کو اندازہ ہوا کہ مہمان موصوف تیکنیکی اُمور میں ’’عمل خلل‘‘ رکھنے کے ساتھ ساتھ خاصے ’’زبان دراز‘‘ بھی ہیں۔ زبان سے متعلق کوئی دُور دراز کا مسئلہ بھی درپیش ہو تو زبانی حل کر دیتے ہیں۔ اجلاس میں شریک سب کے سب مندوب ایسے تھے جن کو دعویٰ تھا کہ ۔۔۔ ’’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں‘‘ ۔۔۔ لہٰذا اِس نام نہاد ’’زبان شناس‘‘ کا بھی وہی حال ہوا جو کسی مجلس میں آن پہنچنے والے کسی ’’دست شناس‘‘ کا ہوتا ہے کہجیسے ہی پتا چلتا ہے کہ ہماری محفل میں شریک شخص کو ’’دست شناسی‘‘ کا دعویٰ بھی ہے، تو بڑے بڑے معتبر اور محتاط لوگ اُس کے آگے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں کہ:
آیا بود کہ گوشۂ چشمے بِما کنند؟
’کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اپنی آنکھ کا ایک گوشہ ہماری ہتھیلی کی طرف بھی کردیں؟‘ ہمیں بھی بتا دیں کہ ہم کہاں کے دانا ہیں؟ کس ہنر میں یکتا ہیں؟ تو ایسا ہی اِس عاجز کے ساتھ بھی ہوا۔ سب سے پہلا ’زبانی مسئلہ‘ جن نوجوان صاحب نے پیش کیا وہ ’پختون زلمے‘ تھے۔ کہنے لگے:
’’میرے صوبے کے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ تمہاری پشتو اچھی نہیں۔ صوبے سے باہر کے لوگ کہتے ہیں کہ تمہاری اُردو اچھی نہیں۔ صاحب! میری تو پشتو اچھی ہے نہ اُردو۔ بتائیے کہ میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟‘‘
یہ سوال سن کر ہماری سٹی گم ہو گئی۔ ’’گاما‘‘ کو رونا بھی آیا اور ہنسی بھی آنے لگی۔ ہماری بھی سمجھ میں نہ آیا کہ ہم کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ مگر ’ماہرانہ مشورہ‘ دینا لازم تھا۔ ورنہ ’مہارت‘ پر حرف آتا۔ سو عرض کیا: ’’اُردو تو آپ اچھی خاصی بول لیتے ہیں۔ صرف اپنی پشتو پر توجہ دیں‘‘۔
یہ مشورہ سن کر وہ پشتو میں نہ جانے کیا کیا کہتے رہے۔ مگر ہم نے اُن کی ’’پشتو گوئی‘‘ پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
ادارے کے صدر نشین تشریف لائے تو باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوا۔ ہر شخص انہیں ’’باس‘‘ کہہ کہہ کر بُلاتا تھا۔ نہ جانے کیوں ہمیں میرؔ کا یہ شعر یاد آگیا:
گُل کو محبوب پر قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا
’’باس‘‘ کی بُوباس سے ہمیں بھی فرق کا اندازہ ہوا۔ مندوبین میں سے ایک نوجوان نے، کہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا ماہر گردانا جاتا تھا، ’’باس‘‘ سے بصری رُوداد پیش کرنے کی اجازت چاہی اورکہا: ’’ہماری سابقہ کارکردگی کی رُوداد ملاحظہ فرما کر ہماری رہنمائی فرمائیں‘‘۔
’’باس‘‘ نے سر ہلا کر بصری رُوداد پیش کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تو لڑکے نے اپنے ہاتھ کا کوئی ہتھیار ہلایا۔ پردۂ سیمیں روشن ہو گیا۔ لڑکا بولتا رہا اور پردۂ سیمیں پر دائرے، مربع، مستطیل، بیضوی شکلیں اور اعداد و شمار یکے بعد دیگرے نمودار ہوتے رہے۔ بعض بعض منصوبوں اور تقاریب کی تصویری جھلکیاں بھی دکھائی گئیں۔ رواں تبصرے میں کارکردگی کی تمام تفصیلات بتائی جاتی رہیں۔ ’’باس‘‘ اپنے منہ کی پُڑیا سی باندھے بیٹھے سنتے رہے۔ ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تفسیر بنے سب کچھ پٹر پٹر دیکھا کیے۔ پردے پر ’’آپ کا شکریہ‘‘ کے الفاظ نمودار ہوئے اور متحرک تصاویر کے ساتھ ساتھ مبصر کی قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان بھی تھم گئی۔ مگر یہ کیا؟ ’’باس‘‘ کی زبان یکایک کسی ’’آرا مشین‘‘ کی طرح چلنے لگی۔ بس یوں سمجھیے کہ رُوداد سمیٹی گئی اور ’’باس‘‘ پھٹ پڑے:
’’یہ آپ لوگوں کے کرتوت ہیں؟ اتنی ناقص کارکردگی؟ اس قدر مختصر اعداد وشمار؟ ذرا اقوامِ متحدہ کے اداروں کو دیکھیے ۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے مذکورہ اداروں کے رٹے رٹائے اعداد و شمار بیان کرنے شروع کر دیے۔ ہم تو دنگ رہ گئے۔ لڑکوں نے انتہائی کم وسائل میں نہایت شان دار کام کیا تھا۔ وہ تحسین و ستائش کے مستحق تھے۔ اُن کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تھی، نہ کہ اقوام متحدہ جیسے قدیم اور مستحکم ادارے سے موازنہ کیا جاتا جس کی عمر اس شعبے کی عمر سے ستّر گنا زیادہ تھی اور جس کے وسائل اس شعبے کے وسائل کے مقابلے میں ایسے ہی تھے جیسے پاکستان کے ایک کلرک کی تنخواہ و مراعات کے مقابلے میں امریکی صدر ٹرمپ کی تنخواہ اور مراعات۔
’’باس‘‘ کی بحثا بحثی میں ایک نادر و نایاب وقفہ آیا، تو اس خیال کے تحت کہ ’’الدّین النصیحہ‘‘ یعنی دین ’’خیر خواہی‘‘ کا نام ہے، ہم نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بزبانِ فرنگ یہ عرض کیا کہ:
’’اے عزیزو! ہمارے قیمتی مشوروں کی ضرورت عملے کو نہیں، ’’باس‘‘ کو ہے۔ بلاشبہ، اپنی تقریر میں ہم بھی یہی کہنے کو تھے کہ:
خاک پر بھی اگر بناؤ محل
سنگِ بنیاد عرش پر رکھنا
مگر اعلیٰ کارکردگی کے حصول کے لیے پچھلی کارکردگی پر شاباش ضروری ہے۔ انعامات کا اعلان ہونا چاہیے، مراعات میں اضافہ ہونا چاہیے، کیوں؟ ۔۔۔ کیوں کہ مزدورِ خوش دِل کُند کارِ بیش!‘‘
خیر، خلافِ توقع ہماری تقریر کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔ بعد کو عملے نے بتایا کہ ہمارے ’’باس‘‘ کا مزاج یہی ہے کہ کبھی کسی کے کام کی تعریف نہ کرو تاکہ وہ قابل تعریف بننے کی کوششوں میں جُتا رہے۔ جو سامنے آتا ہے، وہ اُس سے بھِڑ جاتے ہیں۔ اُس کے لتے لے لیتے ہیں۔ مقصد اُن کے پیش نظر یہی ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ ترین ہدف کو اپنا مطمح نظر بنائے رکھے۔ ہم نے پوچھا: ’’اب تک کتنے لوگ ادارے کو چھوڑ کر جاچکے ہیں؟‘‘ جواب توقع کے عین مطابق ملا۔ ہمیں بتایا گیا: ’’ہر ذہین، لائق و فائق اور مستعد رہنے والا باصلاحیت فرد کسی اچھی جگہ ملازمت کا موقع ملتے ہی ادارے کو چھوڑ جاتا ہے۔ البتہ اوسط کارکردگی رکھنے والے لوگ مجبوراً اسی تنخواہ پر کام کرتے رہتے ہیں‘‘۔ عرض کیا: ’’ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے ۔۔۔ کہ امیرکاروں میں نہیں خوئے دِل نوازی‘‘۔
تب ہمیں ایک قصہ یاد آگیا۔ یہ قصہ ہم نے اسی محفل میں اس تمہید کے ساتھ سنا دیا:
’’بہت سے لوگ سختی اور سخت گیری ہی کو بہترین انتظامی صلاحیت کا جوہر جانتے ہیں۔ آپ سب جان چکے ہیں کہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ سختی اور سخت گیری کی ضرورت بھی کبھی کبھی پڑ ہی جاتی ہے۔ مگر کبھی کبھی۔ ایسے ہی ایک ’’باس‘‘ ایک دفعہ اپنے دفتر کے معمول کے دورے پر نکلے۔ ابھی اپنے کمرے سے باہر ہی نکلے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ انتظار گاہ کے صوفے پر بیٹھا ایک کارکن دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے موبائل پر منہمک ہے۔ یہ کھڑے اُسے دیکھتے رہے، مگر اُس کے انہماک میں ذرا بھی فرق نہیں پڑا۔ اِس گستاخی پر وہ بھی پھٹ پڑے۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ اُس سے کوئی وضاحت طلبی کیے بغیر اُس سے ڈپٹ کر پوچھا: ’’اے مسٹر! تمہاری تنخواہ کتنی ہے؟‘‘
’’باس‘‘ کی گرج دار آواز سنتے ہی وہ گھبرا کر صوفے سے اُٹھ کھڑا ہوا اور لرزتی ہوئی آواز میں بولا: ’’سر! صرف تین ہزار روپے ماہانہ ہے!‘‘
’’باس‘‘ نے پہلے تو یہ کہا کہ: ’’تمہاری اِس ’کارکردگی‘ کے لحاظ سے یہ تنخواہ بھی ضرورت سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
پھر اپنی پتلون کی پچھلی جیب سے بٹوا نکالا۔ بٹوے سے تین ہزار روپے نکالے۔ یہ روپے اُس کے منہ پر مارے اور فرمایا:
’’ابھی اور اسی وقت یہاں سے دفع ہو جاؤ اور آئندہ کبھی اپنی شکل نہ دکھانا‘‘۔ لڑکا اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر انہوں نے ۔۔۔ ’’دفع ہوجاؤ، دفع ہوجاؤ‘‘ ۔۔۔ کی ایسی رٹ لگائی کہ اُسے ’’دفع‘‘ ہوتے ہی بن پڑی۔ ان کی نظریں گیٹ کے باہر تک اُس کا تعاقب کرتی رہیں۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تب ’’باس‘‘ نے دیکھا کہ انتظامی اُمور کے مینیجر صاحب بھی پیچھے کھڑے کانپ رہے ہیں۔ اب ان کا رُوئے سخن اُدھر کو ہوگیا:
باقی صفحہ9نمبر1
احمد حاطب صدیقی
’’یہاں کھڑے کیوں کانپ رہے ہو؟ انتہائی ناقص کارکردگی ہے تمہاری۔ کیسے کیسے لوگ تم نے بھرتی کر رکھے ہیں؟ یہ کس شعبے میں کام کرتا تھا؟‘‘
مینیجر صاحب نے بتایا: ’’یہ لڑکا پرنٹر بیچنے والی کمپنی کی طرف سے آیا تھا، آپ کا پرنٹر ٹھیک کرنے کے لیے۔ ہم نے اُس سے کہا تھا، دس منٹ رُک جاؤ، ابھی باس اپنے کمپیوٹر پر کام کر رہے ہیں۔ فارغ ہوجائیں تو اُن کا پرنٹر ٹھیک کردینا‘‘۔