پاکستان کی طاقت

642

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بڑا تیر مارا ہے کہتی ہیں کہ کلبھوشن وہی بول رہا تھا جو اس کو پاکستان نے سکھایا۔ اہلخانہ سے اس کی ملاقات کو پاکستان نے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا، وہ کوئی شرارت کرنا چاہتا ہے، وہ دعویٰ کررہی ہیں کہ کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ کو ہراساں کیا گیا، جوتوں میں کیمرا تھا تو پاکستان میڈیا کو دکھاتا۔ بھارتی وزیر خارجہ کا بیان نہایت کمزور اور بے بنیاد ہے بلکہ ایک اعتبار سے اعتراف شکست ہے۔ اگر کلبھوشن وہی بول رہا تھا جو اسے پاکستان نے سکھایا تھا تو پھر وہ سوچ لیں کہ کس کو جاسوس بنایا جانا چاہیے۔ بھارتی جاسوس تو وہ تھا جس نے 28 برس تک یہی کہا کہ میں بے قصور ہوں اور رہا ہو کر بھارت پہنچتے ہی کہا کہ میں جاسوس تھا۔ اگر سشما سوراج درست کہہ رہی ہیں تو پھر بھارت کو اپنا جاسوسی نظام لپیٹ دینا چاہیے یا پھر کسی کو ٹھیکے پر یہ کام دے دیا جائے۔ اس بیان میں پاکستان کی کامیابی کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ان کے جاسوس کو پاکستان جو سکھا دے وہ وہی بولنے لگے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس زیادہ مہارت اور طاقت ہے۔ سشما نے ملاقات کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا واویلا کیا ہے۔ اب ان سے ان کے میڈیا کو پوچھنا چاہیے کہ پاکستان اور کیا کرتا۔ پاکستانی حکومت اور سیکورٹی اداروں نے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بڑا قدم اُٹھایا ہے جب کہ اس کے نتیجے میں عوام میں یہ سوال بجا طور پر پیدا ہوا ہے کہ اگر بھارت کے جاسوس کے لیے آپ کے پاس اس قدر ہمدردی اور محبت ہے تو پھر پاکستانی قوم کی بیٹی عافیہ کے لیے کیوں بے چین نہیں ہوتے۔ کلبھوشن تو جرم کا اعتراف بھی کرچکا اور بھارتی اخبار کے مطابق کلبھوشن نے اپنی بیوی اور والدہ کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ میں جاسوس ہوں اور اپنی تخریبی سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا۔ یہ بیان تو ٹائمز آف انڈیا کا ہے لیکن اگر اس کو سشما سوراج کے بیان سے ملائیں تو تصدیق ہوتی ہے کہ بھارتی جاسوس نے قید ہوتے ہی توتے کی طرح بولنا شروع کردیا تھا۔ اس کے اعترافی بیان اور تخریبی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹیں ایک دوسرے کی تصدیق کررہے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ کو ہراساں کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں جب کہ پاکستانی ترجمان کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کی والدہ نے ملاقات کرنے پر ہمارا شکریہ ادا کیا ہے۔ جہاں تک کپڑے تبدیل کرانے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ بھی سامنے آگئی، جوتے میں کیمرا نہیں چپ لگی ہوئی تھی اور یہ بات ضروری تو نہیں کہ پاکستان جو چیز پکڑے فوراً میڈیا کو دکھادے۔ وقت آنے پر مناسب فورم پر یہ ثبوت بھی پیش کردیے جائیں گے۔ ویسے عالمی برادری تو کسی ثبوت پر بھی جنبش نہیں کرتی لیکن جوتے میں جاسوسی آلات ملنے کا مطلب یہی ہے کہ بھارتی حکام ملاقات کی تفصیلات جاننا چاہتے تھے، جس میں انہیں بری طرح ناکامی ہوئی ہے اور اگر پاکستان اس ملاقات، جاسوسی آلات اور بھارتی جاسوس کے اعتراضات کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال نہ کرے تو کیا کلبھوشن پر صدقہ کردے یا اعتماد سازی کے اقدامات کی بھینٹ چڑھا دے۔ پاکستان تو اس حوالے سے بہت کمزور ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں فوج، حکومت اور سیاسی قیادت ایک پیج پر کہلائے جانے کے باوجود منتشر ہیں۔ جب کہ بھارت میں کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے سب کی پالیسی اور زبان ایک رہتی ہے۔ پاکستان میں تو کوئی کشمیر پر تھرڈ آپشن دیتا ہے تو کوئی جان چھڑانے کی بات کرتا ہے، جب کارگل پر کنٹرول ہوتا ہے تو جوانوں کو اتارنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ جب کشمیر میں پاکستانی مجاہدین داخل ہوگئے تھے تو ان کو روک لیا گیا پھر بھی اگر اب پاکستان ایک کمزور پروپیگنڈا کررہا ہے تو سشما کو برا لگ رہا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کشمیر اور بھارت کے حوالے سے دنیا کو بھارتی چہرہ دکھائے۔ کلبھوشن کے اعترافی بیان اس کی والدہ اور بیوی کی ملاقات کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرے۔ بھارتی جارحیت اور کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے سارے ثبوت میڈیا کے ذریعے سامنے لائے۔
بھارتی حکومت کلبھوشن کے حوالے سے نہایت بری طرح پھنس چکی ہے اگر پاکستانی حکومت اور فوج چاہے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو عالمی عدالت انصاف میں گھسیٹ سکتی ہے کہ اس نے بنگلا دیش جا کر یہ اعتراف کیا ہے کہ ہم نے پاکستان توڑا تھا۔ مکتی باہنی کے ساتھ ڈھاکا گئے تھے۔ یہ بیان کوئی اخباری بیان نہیں تھا بلکہ بنگلا دیشی وزیراعظم کے سامنے وہ اس کا اعتراف کررہے تھے۔ سشما سوراج کے بیان کا مطلب تو یہ ہوا کہ بھارتی لوک سبھا میں بھی کوئی سنجیدہ رکن نہیں ہے جس نے وزیرخارجہ کے اس نامعقول بیان پر ان کی گرفت کی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کچھ دن کے لیے سشما سوراج، نریندر مودی، واجپائی اور ایل کے ایڈوانی کو بھی اپنا مہمان بنالے پھر جو سکھائیں گے وہی بولیں گے۔ پھر کشمیر بھی پاکستان کا اور سارے دریا بھی۔۔۔ جاسوسی اور جارحیت بھی ختم ہوجائے گی۔ بس کچھ دن کے لیے مہمان بننے کی دیر ہے۔