حافظ سعید پر غصہ‘ مودی پر فدا؟

399

حافظ سعید کو بوجھ قرار دینے والے وزیر دفاع آج کل وزیر خارجہ ہیں لیکن وزیر دفاع کے فرائض انجام دینے والے خرم دستگیر بھی آج کل وہی زبان استعمال کر رہے ہیں جو خواجہ آصف کرتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حافظ سعید کی سیاسی عمل میں شمولیت سے تشدد بڑھے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن سے درخواست کی ہے کہ حافظ سعید کی جماعت کی رجسٹریشن نہ کی جائے۔ ملّی مسلم لیگ کو قومی دھارے میں شامل کرنا مشکل معاملہ ہے‘ پارلیمان میں کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ خرم دستگیر کسی اصولی اختلاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے لیے خطرہ ہونے کے سبب ملّی مسلم لیگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں تو یہ خطرہ ہے کہ ملّی مسلم لیگ ن لیگ کے ووٹ کاٹے گی جیسا کہ این اے 120 میں ہوا۔ ورنہ جو بیان خرم دستگیر نے دیا ہے وہ پاکستان کی موجودہ اور سابق تمام حکومتوں کی پالیسیوں کے خلاف ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی امن کے قیام کی تمام کوششوں کے خلاف ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے بلوچستان میں پہاڑوں پر چڑھنے والوں کو اسلحہ رکھنے اور قومی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی اختیار کی اس حوالے سے سب سے بڑے اور کامیاب فرد سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو بلوچستان میں لیویز‘ رینجرز‘ ایف سی حتیٰ کہ فوج کو بھی نشانہ بناتے تھے۔ ان کے حملوں کی زد میں ہر غیر بلوچ آسکتا تھا‘ اُن کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔ خود ڈاکٹر مالک پہاڑ سے نیچے اترے‘ سرفراز بگٹی بھی اس کی ایک مثال ہیں تو کیا ان لوگوں کے قومی دھارے میں آنے سے تشدد کو فروغ حاصل ہوا۔۔۔؟ ظاہری بات ہے ایسا نہیں ہوا۔ اسی طرح کئی لوگ خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان آئے‘ وزارتیں سنبھالیں‘ گورنر اور وزیر اعلیٰ بنے تو اس سے تشدد کو فروغ حاصل ہوا۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ بیان تو تضادات کا مجموعہ ہے۔
ایک جانب حافظ سعید ہیں جن پر الزام بھارت کے خلاف کوئی کارروائی یا بہت سی کارروائیوں کا ہے۔ ایسے فرد کے لیے تو پاکستان کو ڈٹ جانا چاہیے کہ بھارت کے خلاف اگر کسی فرد نے کوئی کارروائی کی ہے یا کروائی ہے تو یہ تو پاکستانی حکومت اور فوج کے حصے کا کام ہے اگر بھارت کے الزام پر کارروائی کی جارہی ہے تو کیا بھارت کے الزام پر پاک فوج کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی؟ حافظ سعید یا جماعت الدعوۃ سے صرف بھارت کو تکلیف ہے یا مسلم لیگ ن کو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس کی ڈوریں کہاں سے ہل رہی ہیں۔ سب سے بڑا تضاد تو یہ ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں کو قتل کرنے والی ایم کیو ایم مسلسل 35 برس سے قومی دھارے کا حصہ ہے۔ اسے نہ صرف سیاسی عمل میں شریک کیا گیا بلکہ اس کو اتنی زیادہ حیثیت اور طاقت دی گئی کہ جنرل پرویز مشرف‘ نواز شریف‘ بے نظیر‘ رحمن ملک‘ آصف زرداری سب نائن زیرو کے غلام بن کر رہ گئے۔ اگر حافظ سعید پر بھارتی الزامات درست بھی ہیں تو انہوں نے اور ان کی جماعت نے اپنے ملک کے 35 ہزار شہری نہیں مارے ہوں گے جب کہ اپنے ملک کے 35 ہزار لوگوں کو مارنے والے آج بھی قومی دھارے اور اسمبلیوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ پارلیمنٹ میں ہیں جنہیں الطاف حسین نے نامزد کیا تھا۔ وزیر دفاع یہ بھی بتائیں کہ اگر ملّی مسلم لیگ کی رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے تو اس نے الیکشن میں حصہ کیسے لے لیا؟ پھر وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ وزارت داخلہ نے اس کی رجسٹریشن کی مخالفت کی ہے۔ شکر ہے وہ اس مسئلے پر پارلیمان میں کھل کر بحث کرنا چاہتے ہیں تو پھر سب کو سننا ہوگا اور سب باتیں سامنے آئیں گی۔ اگر بھارتی الزامات ہی معیار ہیں تو پھر وزیر دفاع صاحب پاک فوج کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے‘ اس کے خلاف تو بھارت ہر وقت بھونکتا رہتا ہے۔ امریکا پاک فوج کو روگ آرمی (بدمعاش) قرار دے چکا ہے تو کیا ان کے اس بے سروپا الزام پر آپ پاک فوج کے خلاف بھی کارروائی کر بیٹھیں گے۔ خرم دستگیر صاحب کو اپنی پارٹی کے نااہل سربراہ سے سوال کرنا چاہیے کہ نریندر مودی پراس قدر فدا کیوں ہیں؟ وہ تو غدار پاکستان شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد کے ساتھ علی الاعلان پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کا اعتراف کر چکا ہے‘ اس کے ساتھ سیاسی عمل اور رواداری کی باتیں کی جارہی ہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ اپنی نواسی کی شادی میں ویزے کے بغیر اس کی میزبانی کرکے کیا گیا۔ اگر تشدد بڑھنے کے خدشات کو سامنے رکھیں تو خود ان کی پارٹی کے سرگرم وزیر خواجہ سعد رفیق زمانۂ طالب علمی میں تشدد کے بادشاہ تھے اُن کو سیاست میں شامل کرکے تشدد کے فروغ کے خدشات نہیں بڑھے؟
ساری دنیا میں یہی پالیسی رہی کہ مسلح گروہوں کو قومی دھاروں میں شامل کیا جائے۔ فلپائن میں منڈا ناؤ کی حکومت‘ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کو قومی دھارے میں شامل کیا جانا اور شمالی آئر لینڈ میں آئرش ری پبلک آرمی کو سیاست کے دھارے میں شامل کیا گیا تو کیا اس سے تشدد میں اضافہ ہوا؟ ان سب مقامات پر اب امن ہے۔ وزیر دفاع صاحب اپنے معاملات دیکھیں‘ خوف زدگی میں قومی مفادات پر ضرب نہ لگائیں۔