اشتہاری مجرم کو گولڈ میڈل دینے کی تجویز

398

احتساب عدالت مسلسل غیر حاضر رہنے پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اشتہاری مجرم قرار دے چکی ہے اندرون ملک ان کے اثاثے ضبط کرنے کا عمل بھی جاری ہے جب کہ ان کا ضمانت نامہ بھی منسوخ ہوچکا ہے اور عدالت ضمانت کی رقم ضبط کرنے کا حکم جاری کرچکی ہے یہ اور بات کہ ضامن نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے چند روز کی مہلت لے رکھی ہے۔ ڈار پر پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں اپنی آمدن سے بڑھ کر غیر معمولی اثاثے بنانے کا الزام ہے اور عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر نیب نے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کررکھا ہے جس کی ابتدائی سماعتوں میں تو وہ حاضر ہوتے رہے، ان کی موجودگی میں ان پر فرد جرم بھی عاید کی گئی لیکن چھ سات سماعتوں میں پیشی کے بعد وہ اچانک لندن چلے گئے اور وہاں جاتے ہی وہ عارضی قلب میں مبتلا ہوکر کسی اسپتال کے بستر پر لیٹ گئے اور اخبارات میں اس کی تصویر بھی جاری کروادی لیکن احتساب عدالت اس ڈرامے سے متاثر نہ ہوئی اس نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اگر اسحاق ڈار بیمار ہیں تو وہ پاکستان واپس آئیں یہاں ان کا بہتر علاج ہوسکتا ہے۔
عدالت نے ڈار کے ضمانتی احمد علی قدوس کو حکم دیا کہ وہ ملزم کو تین دن کے اندر پیش کرنے کا بندوبست کرے ورنہ اس کے ضمانتی مچلکے ضبط کرلیے جائیں گے۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا میں لکھا ہے کہ یہ سارا عمل مکمل ہوچکا ہے اور اب نیب انٹر پول کے ذریعے سابق وزیر خزانہ کو وطن واپس لانے کے لیے کوشاں ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسحاق ڈار نے اپنے اوپر فرد جرم عاید ہونے کے باوجود وزارت خزانہ سے استعفا نہیں دیا تھا اور نہ ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ان سے استعفا لینے کی جرأت کرسکے تھے لیکن ملک سے فرار ہونے کے بعد ڈار کے لیے اپنے منصبی فرائض انجام دینا دشوار تھا اس لیے انہوں نے لندن سے وزیراعظم کے نام تین ماہ کی رخصت کی درخواست بھیج دی جسے منظور کرلیا گیا۔ ظاہر ہے کہ تین ماہ ختم ہونے کے بعد بھی اسحاق ڈار واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے اس لیے انہیں سابق وزیر خزانہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اندر کی اطلاع یہ ہے کہ انہوں نے سابق ریکارڈ کے مطابق شریف فیملی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی پیش کش کی تھی لیکن احتساب عدالت اس پر آمادہ نہ ہوئی چناں چہ ایسی صورت میں انہوں نے واپس نہ آنے کا فیصلہ کرلیا۔ یاد رہے کہ وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں حدیبیہ پیپر ملز کیس میں شریف فیملی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے اور شریفوں کے خلاف ایک طویل بیان دے کر جان کی امان حاصل کرلی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہو پارہا اور وہ بیرون ملک پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات ایک مدت تک ان کے خاندان کے لیے جنت ارضی بنارہا جہاں ان کے بیٹے اربوں میں کھیل رہے تھے اور ان کا کاروبار جس کی تفصیل کبھی ظاہر نہیں کی گئی، دن دونی رات چوگنی ترقی کررہا تھا لیکن پاناما لیکس نے اس کاروبار میں کھنڈت ڈال دی جب کہ جے آئی ٹی کے ساتھ امارات حکومت کے تعاون نے ڈار فیملی کو متحدہ عرب امارات سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کردیا۔ فی الحال یہ سب لوگ لندن میں ہیں جہاں اسحاق ڈار کا ’’علاج‘‘ بھی چل رہا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر لندن میں اسحاق ڈار کا ’’علاج‘‘ کارگر نہ ہوا تو یہ خاندان سعودی عرب منتقل ہوجائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستانی سیاست کا اعصابی مرکز ان دنوں جدہ قرار پاریا ہے اور شریف برادران سعودی حکمرانوں سے کوئی ’’بیل آؤٹ پیکیج‘‘ لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ اگر شریف خاندان سرخرو ہوا تو اسحاق ڈار کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ممکن ہے کہ وہ بھی نیب کے پھندے سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں۔
ہم یہ بات پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اسحاق ڈار کا اصل جرم یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی قانونی آمدنی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثاثے بنائے ہیں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم ان کا یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو بیرونی قرضوں کے ہولناک ترین دلدل میں دھنسا دیا ہے جس سے ملک کا نکلنا انتہائی دشوار نظر آرہا ہے لیکن وزیر داخلہ محترم احسن اقبال کی خوش گمانی ملاحظہ ہو کہ وہ اسحاق دار کو پاکستانی معیشت کا معمار قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے پاکستان کی گرتی معیشت کو وہ سنبھالا دیا ہے کہ انہیں گولڈ میڈل ملنا چاہیے۔ سابق وزیر خزانہ اس وقت قانون کی نظر میں اشتہاری مجرم ہیں انہیں انٹرپول کے ذریعے ملک میں واپسی لانے اور قانون کے حوالے کرنے کا معاملہ زیر غور ہے ایسے میں وزیر داخلہ کی طرف سے ان کی کارکردگی کو سراہنا اور ان کے لیے گولڈ میڈل تجویز کرنا تجاہل عارفانہ نہیں تو اور کیا ہے۔ اسے قومی معیشت سے بے خبری کی دلیل بھی قرا ردیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی معیشت کو جتنا نقصان اسحاق ڈار کے دور وزارت میں ہوا اتنا شاید اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ بیرونی قرضہ ڈار کے دور میں لیا گیا اور وہ بھی نہایت بلند شرح سود پر۔ اس کی وجہ پیپلزپارٹی کے اولین وزیر خارجہ ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنے ایک مضمون میں یہ بتائی ہے کہ بیرونی قرضہ لیتے وقت وزارت خزانہ کے حکام بھاری شرح سود پر لیا گیا ریاست کے ذمے پڑجاتا ہے اور کیک بیک کی رقم ذاتی اکاؤنٹ میں چلی جاتی ہے۔ اسحاق ڈار جب تک وزیر خزانہ رہے انہوں نے کسی اور کی نہیں چلنے دی وہ ڈونر ایجنسیوں سے براہ راست مذاکرات کرتے اور شرائط طے کرتے تھے۔ ریاست کے تمام مالیاتی اداروں پر ان کا قبضہ تھا حتیٰ کہ وزارت تجارت بھی ان کی دسترس میں تھی۔ اب یہ کام تحقیقاتی اداروں کا ہے کہ اسحاق ڈار نے بیرونی قرضوں کے ذریعے کتنا کمایا اور اندرون ملک ٹیکسوں میں ردوبدل اور تجارتی قواعد وضوابط میں تبدیلی کے ذریعے کتنی دولت جمع کی۔ محترم احسن اقبال اپنے سابق وزیر خزانہ کو گولڈ میڈل ضرور دیں۔ لیکن قومی معیشت کو سنبھالا دینے کے اعتراف میں نہیں بلکہ نجی معیشت کو فروغ دینے کے اعتراف میں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لائیں اور کھلے بندوں ان کی ’’خدمات‘‘ کو خراج تحسین پیش کریں۔ یہ ان کی ’’خدمات‘‘ ہی کا نتیجہ ہے کہ ڈالر کو پاکستانی روپے کے مقابلے میں پر لگ گئے ہیں اور ملک میں ہوشربا مہنگائی کا طوفان اُمڈ آیا ہے اور ملک پر مزید قرضہ نہ لینے کے باوجود قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔