جھوٹوں کا بادشاہ 

322

دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہذب ملک امریکا، سب سے زیادہ ترقی یافتہ امریکا، سب سے زیادہ طاقتور امریکا، سب کچھ جاننے والا امریکا، سب سے زیادہ سچا امریکا اور جتنی بھی باتیں سب سے زیادہ ہوں تمام اچھی خصوصیات اس کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ امریکا کے بارے میں یہ باتیں محض روایت کے طور پر رہ گئی ہیں اور بیشتر باتیں اب صرف امریکی حکمرانوں کی زبانوں پر ہیں۔ ایک بات یہ کہی جاتی تھی کہ امریکی صرف سچ بولتے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔ شاید عام امریکیوں میں یہ عادت اب بھی باقی رہ گئی ہو لیکن امریکی حکمرانوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سچ کے سوا سب کچھ بولتے ہیں اب یہ کبھی سچ نہیں بولتے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرمایا ہے کہ پاکستان کو امداد دے کر بے وقوفی کی، پاکستان نے بدلے میں دھوکا دیا۔ اب امداد نہیں دیں گے۔ امریکی صدر نے کہاکہ 33 ارب ڈالر کے بدلے صرف جھوٹ اور دھوکا ملا وہ ہمارے رہنماؤں کو احمق سمجھتا رہا خطیر رقم وصول کرکے معمولی تعاون کیا امریکی صدر صاحب نے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے جنہیں ہم افغانستان میں تلاش کررہے تھے اب ایسا نہیں چلے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں امریکیوں کی رائے یہ ہے کہ یہ شخص انتہائی غیر سنجیدہ ہے بلکہ بہت بڑی تعداد انہیں مسخرا ہی سمجھتی ہے۔ اس مسخرے نے پاکستان کے بارے میں کہاہے کہ 33 ارب ڈالر کے بدلے دھوکا ملا ہے۔ اگر امریکی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایف 16 کی رقم سے لے کر طیاروں دیگر ہتھیاروں وغیرہ کے سودوں میں گھپلے ہی گھپلے۔ ایف 16 کے پیسے دباکر کئی عشروں تک امریکا وعدہ نبھارہا تھا یا دھوکا دے رہاتھا۔ افغانستان میں اپنی جنگ کو پاکستان اور عالمی برادری کی جنگ قرار دے کر زبردستی اتحادی فنڈ بناکر پاکستان کے نقصان کے ازالے کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہ رقم ادا کرتا رہا۔ پاکستان نے گزشتہ سترہ برس میں جتنا نقصان اٹھایا ہے امریکا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اگر امریکی بیان تسلیم کرلیا جائے کہ افغانستان میں موجود لوگ 9/11 کے ذمے دار تھے تو بھی پاکستان کا اس میں کیا قصور تھا۔ ابتدا پاکستان پر’’ غلطی‘‘ سے راکٹ باری کرکے کی گئی تھی پھر تو اونٹ کی طرح سر خیمے میں ڈال کر پورے خیمے میں گھس بیٹھا۔ زبردستی اپنی مرضی کے قوانین مسلط کرائے۔ پاکستانی فوج سے پاکستانی عوام کو مروایا، لوگوں کو اغوا کرواکر اپنے پاس غیر قانونی طریقے سے لے گئے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس کی سب سے بڑی مثال ہے جب کہ دیگر بہت سے پاکستانی امریکی بدنام زمانہ جیل گوانتا ناموبے میں جرم بے گناہی کی سزا بھگتتے رہے۔ عام امریکیوں کو تو سچا سمجھاجاسکتا ہے لیکن گزشتہ ربع صدی سے وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان کے رہنما صرف جھوٹ بولتے ہیں، ان کے جھوٹ صرف جھوٹ نہیں ہوتے اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے جاتے ہیں۔ امریکیوں نے جھوٹ بولا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں صدام عالمی مجرم ہے پھر اس سے قبل کہ اقوام متحدہ سے منظوری ملتی اس پر حملہ بھی کردیا۔ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ آج تک اس ملک میں امن نہیں ہے عراق پر امریکا کا 15 سال مکمل قبضہ رہا اب بھی اسی کا سکہ چلتا ہے۔ صدام ماراگیا لیکن وسیع پیمانے پر تباہی والے ہتھیار کوئی جیب میں رکھ کر چلتا بنا۔ امریکی سی آئی اے کے جھوٹ کی تصدیق صدر بش نے کی،امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول نے اقوام متحدہ میں من گھڑت ثبوت پیش کیے۔ صدر اوباما اس کی تصدیق کرتے رہے، ٹرمپ بھی اس پر یقین رکھتے تھے۔ یہ جھوٹوں کا ٹولہ اگر آج پاکستان کو 33 ارب ڈالر کا طعنہ دے رہا ہے تو یہ بھی جھوٹ ہی ہے۔ جتنا نقصان پاکستان نے امریکی جنگ میں اٹھایا ہے اتنا دنیا میں کسی ملک نے دوسرے کی جنگ میں نہیں اٹھایا۔ تقریباً 40 ہزار پاکستانی اس دوران میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، نامعلوم دشمن نے ہزاروں دھماکے کیے جن سے املاک اور عمارتوں کا بھی بھاری نقصان ہوا۔ پورا ملک بد امنی کا شکار ہے۔ حکومت پاکستان بھی امریکیوں کی طرح دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کردیتی ہے پھر اگلے دن نیا دھماکا ہوجاتا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ تو امریکا کو امدادی رقم کا حساب بھی دینے پر تیار ہوگئے۔ اگر پاکستان نے امریکا کا سامنا کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو پھر اس سے پہلا سوال یہی کیا جانا چاہیے کہ اب تک امریکا نے جتنے دعوے کیے ہیں وہ سب جھوٹے نکلے ہیں۔ پہلے ان جھوٹے دعوں کا حساب دیاجائے۔ یہ ٹرمپ کہتا ہے کہ پاکستانی ہمارے رہنماؤں کو احمق سمجھتے ہیں جب کہ در حقیقت امریکی اپنے عوام اور دنیا کو احمق سمجھتے ہیں۔ اگر ٹرمپ کا کہناہے کہ اب ایسا نہیں چلے گا تو واقعی اب ایسا نہیں چلے گا، جھوٹوں کے جھوٹ کا حساب ہوگا۔ٹرمپ سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ جن دہشتگردوں کو بقول ان کے، افغانستان میں تلاش کیا جارہا تھا وہ پاکستان میں کیسے گھس کر بیٹھ رہے۔ اس تلاش میں کامیابی کیوں نہیں ہوئی اور وہ امریکی اور ناٹو افواج کے ہوتے ہوئے پاکستان میں کیسے داخل ہوگئے، ان پر سرحدیں بند کیوں نہیں کی جاسکیں۔ جب امریکا اور اس کے صلیبی حواریوں کی فوج افغانستان پر قبضے کے باوجود ان کو نہیں روک سکی تو پاکستان سے یہ توقع کیوں؟ کیا اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ خود امریکا ان کی پرورش کرتا ہے اور پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ حکومت پاکستان نے افغانستان میں موجود ناٹو فوجیوں کو سامان ضرورت فراہم کرنے کے لیے اپنی سرزمین فراہم کی ہے لیکن ناٹو ممالک سے اس کا معاوضہ طلب نہیں کیا۔ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد اب یہ سہولت ختم کردینی چاہیے اور مزید بے وقوفی نہ کی جائے۔