کوئٹہ(نمائندہ جسارت+مانیٹرنگ ڈیسک) بلوچستان کی سیاست میں ہلچل، صوبائی اسمبلی کے اراکین کی جانب سے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے وزیر فشریز سرفراز چاکر ڈومکی مستعفی ہو گئے جبکہ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے استعفا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والے اپنے معاون خصوصی امان اللہ نوتیزئی کو برطرف کر دیا ہے۔ایم پی اے امان اللہ نوتیزئی کی معاون خصوصی کے عہدے سے برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ امان اللہ نوتیزئی وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے ایکسائز تھے۔ ذرائع کے مطابق سرفراز بگٹی جلد اپنا استعفا وزیراعلیٰ بلوچستان کو پیش کردیں گے۔تاحال ان کے استعفے کی وجہ کا باضابطہ اعلان تو نہیں ہوسکا تاہم ذرائع کے مطابق اس کی وجہ گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد ہے۔ ادھر وزیر ماہی گیری بلوچستان میر سرفراز چاکر ڈومکی نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو اپنا استعفا پیش کردیا ہے۔ اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔بلوچستان اسمبلی کے 14 اراکین کی جانب سے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی۔تحریک عدم اعتماد رکن اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور سید آغارضا کی جانب سے جمع کرائی گئی جس پر 14 اراکین اسمبلی کے دستخط ہیں۔عدم اعتماد کی تحریک پر رکن اسمبلی میر قدوس بزنجو، میر کریم نوشیروانی، آغا رضا، میر خالد لانگو، نوابزادہ طارق مگسی، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی، محمد اختر مگسی، زمرد خان اچکزئی، حسین بانو، شاہدہ رؤف، خلیل الرحمان، عبدالمالک کاکٹر اور امان اللہ نوتیزئی شامل ہیں۔خیال رہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور ان سے قبل نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان کے عہدے پر فائز تھے۔واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 21، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14، نیشنل پارٹی کے 11، مسلم لیگ (ق) کے 5، مجلسِ وحدتِ مسلمین کا ایک اور ایک آزاد رکن حزبِ اقتدار کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی نشستوں پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 8 اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا ایک رکن بیٹھتا ہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 2 ارکانِ اسمبلی آزاد نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگار وں کاکہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے حکومت پر عدم اعتماد کی جانے والی کوشش کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک منظور کرنے کے لیے کم ازکم 33 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے جو فی الحال مسلم لیگ (ق) اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مل کر بھی پوری نہیں کر سکتیں۔بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی جماعتوں بشمول پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے جس کو 65 رکنی اسمبلی میں 53 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔