درختوں کی بے دریغ کٹائی ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک اضافہ 

850

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) کراچی میں کئی برسوں سے درختوں کی بے دریغ کٹائی نے شہر میں ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے، آکسیجن کی کمی کے باعث شہریوں کی صحت پر مضر اثرات بڑھ گئے، ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لاکھوں درخت جڑ سے اکھاڑ دیے گئے، دیگر جاری منصوبوں کے لیے مزید ہزاروں درختوں کی کٹائی کے امکانات ہیں، آبادی کا دو فی صد سے زائد حصہ پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں سمیت دیگر کئی امراض کا شکار بن گیا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی اور برسوں سے باقاعدہ شجر کاری مہم نہ چلائے جانے کے باعث آکسیجن کی کمی نے صحت کے مسائل کو گمبھیر بنا دیا ہے، ماحولیاتی آلودگی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور آکسیجن کی کمی اور بارشوں کے نہ ہونے جیسے مسائل نے شہریوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب کرنے شروع کر دیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آکسیجن
کی کمی کی اہم وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے جو درختوں کی کٹائی کی وجہ سے کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے، شہر کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور سیسے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، شہر کے بیشتر علاقوں میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی وجہ سے لوگوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کے امکانات کئی بڑھ چکے ہیں، تبت سینٹر اور صدر کے کئی علاقوں میں فضا میں سیسے کی مقدار خطرناک حد کو بھی عبور کر چکی ہے، ان علاقوں میں سانس لینے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے کوئی فرد بیک وقت درجنوں سگریٹ پھونک ڈالے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اورنج میٹرو بس منصوبے کی تکمیل کے لیے اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے درخت کاٹے جا چکے ہیں جب کہ متبادل کے طور پر صرف 40 ہزار درخت لگائے جا سکے ہیں جب کہ دگر ترقیاتی منصوبوں کے درمیان آنے والے ہزاروں درخت بھی کاٹ دیے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ہر سال ہر ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کو لاکھوں روپے کا بجٹ دیا جاتا ہے مگر وہ کہاں جاتا ہے یہ کسی کے علم میں نہیں، اعلیٰ حکام اس بجٹ کو کھا جاتے ہیں اور کاغذوں میں شجرکاری مہم مکمل کر دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما اور سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مرزا علی اظہر سے ’’جسارت‘‘ نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایک عام انسان کو صحت برقرار رکھنے کے لیے 550 لیٹر آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے اسے 11 ہزار لیٹر ہوا درکار ہوتی ہے اور اس میں 19 فی صد صاف آکسیجن کا ہونا بے حد ضروری ہے ڈاکٹر مرزا علی اظہر نے بتایا کہ اگر آکسیجن کی مقدار اس سے کم ہونا شروع ہو جائے تو انسان کی حالت غیر ہو جاتی ہے اور وہ مختلف نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ایسا کراچی سمیت ملک بھرمیں ہو رہا ہے ‘اگر ہوا میں صاف آکسیجن کی مقدار اسی طرح کم ہوتی رہی تو سب سے بڑا خطرہ کاربن مونو آکسائیڈ کے بننے کا ہے جو آکسیجن کی کم مقدار سے تخلیق ہوتی ہے اور ماہرین اسے ’’خاموش قاتل‘‘ کا خطاب دے چکے ہیں۔