عالمگیر آفریدی
خیبر پختون خوا میں کھیلوں سے متعلق اس وقت میر ے سامنے تین مختلف خبر یں پڑی ہیں۔ پہلی خبر وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک کے ایک بیان سے متعلق ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مو جودہ حکومت نے پچھلے چا ر سال کے دوران تعلیم و صحت کے ساتھ ساتھ کھیل کو خصوصی اہمیت دی ہے اور حکومتی پالیسی کے تحت نوجوانوں کو ہر شعبہ زندگی میں نمایاں اہمیت دینے کے لیے ہر تحصیل میں کھیلوں کا کم ازکم ایک میدان بنایا گیا ہے جب کہ مزید کئی میدانوں کی تعمیر پر بھی کام جاری ہے۔ دوسری خبر میں ڈائریکڑ جنرل اسپورٹس خیبر پختون خوا جنید خان نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور میں ہفتہ کھیل کی اختتامی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں کئی میدانوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پرانے میدانوں کی تزئین و آرائش پر بھی کام جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پشاور کے ارباب نیاز اسٹیڈیم کو دبئی اور شارجہ طرز کے بین الاقوامی معیار کا اسٹیڈیم بنانے کے لیے 137 کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کر رہی ہے جب کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے تعاون سے صوبے کی پہلی بین الاقوامی سطح کی کرکٹ کوچنگ اکیڈمی بھی قیام کے آخری مراحل میں ہے۔
ان خبروں کے بین السطور یہ خبر بھی قومی اور مقامی اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی ہے کہ اسلام آباد میں اختتام پزیر ہونے والے بین الصوبائی قومی کھیلوں کے مقابلوں میں پنجاب نے سونے کے 74، چاندی کے 46 اور کانسی کے 31تمغوں کے ساتھ پہلی، بلوچستان نے طلائی کے 26، چاندی کے 22 اور کانسی کے 38تمغے جیت کر دوسری جب کہ خیبر پختون خوا نے سونے کے 21، چاندی کے 24 اور کانسی کے 51تمغے حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ واضح رہے کہ ان مقابلوں میں ادارہ جاتی ٹیموں کے بجائے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان، فاٹا، اسلام آباد اور آزاد کشمیر کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔
کالم کی تنگ دامنی کا پاس رکھتے ہوئے زیر نظر تحریر میں کھیلوں کی ملکی سطح پرمجموعی کارکردگی اور مسائل پر گفتگو کے بجائے میں خیبر پختون خوا کے قومی کھیلوں کے مقابلوں میں نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکنے اور خاص کر یہاں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت سے چوں کہ بجا طور پر یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ اس کے زیادہ تر ووٹرز 35سال سے کم عمر کے افراد ہیں اس لیے اس غالب اکثریت کی طاقت سے خود کو محروم کرنا مناسب نہیں ہے۔ خیبر پختون خوا کے اہل اسپورٹس کو اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ اگر بلوچستان جیسے پس ماندہ اور غریب صوبے کے کھلاڑی تمام تر مشکلات، سہولتوں کی عدم دستیابی اور شدید ترین بدامنی کے باوجود بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ خیبر پختون خوا جہاں تمام قابل ذکر کھیلوں میں بھر پور ٹیلنٹ پایا جاتا ہے کے کھلاڑی قومی بین الصوبائی مقابلوں میں بلوچستان سے بھی ایک درجہ کم پوزیشن کے حق دار قرار پائے ہیں۔ میرے خیال میں اس پسپائی اور تنزلی کی وجہ جہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے وہاں کھیل اور نوجوانوں کی دیگر مثبت سرگرمیاں چوں کہ کبھی بھی ہماری ترجیح نہیں رہی ہیں اس لیے تمام تر مواقع اور صلاحیتوں کی موجودگی کے باوجود ہم نوجوانوں کے اس بھر پور پوٹینشل سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے ہیں۔ پاکستان کی سیکڑوں سیاسی جماعتوں میں پی ٹی آئی وہ واحد جماعت ہے جس کے نہ صرف سربراہ سابق بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی ہیں بلکہ جس کا انتخابی نشان بھی پاکستان کے سب سے مقبول ترین کھیل کرکٹ کا بلا ہے۔ اسی طرح کھیل کود چوں کہ نوجوانوں کا کام ہے اور خوش قسمتی سے ہمارے معاشرے کی 65فی صد آبادی 35سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان نوجوانوں کی اکثریت پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی
مداح ہے اس لیے خیبر پختون خوا کے عوام اور بالخصوص نوجوان بلا کسی شک وشبے کے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انہیں کھیل اور دیگر مثبت اور صحت مندانہ تفریحی سرگرمیوں کی فراہمی کو بھی خصوصی اہمیت دے گی۔ اس ضمن میں اب تک جو کوتاہی ہو چکی ہے اس سے قطع نظراگر اب بھی کھیلوں کے فروغ اور اسے ایک صنعت سمجھتے ہوئے اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو کھپانے اور ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اسکول، کالج، یونیورسٹی، کلب اور اضلاع کی سطح پر کھیلوں کے فروغ کے ایک جامع منصوبے پر عمل درآمد کا آغازکیا جائے تو اس کے کافی بہتر اور حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ امید ہے موجودہ حکومت اس حوالے سے مزید کسی تساہل سے کام نہیں لے گی کیوں کہ اگر یہ حکومت بھی اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ اور عملی قدم نہ اٹھا سکی تو پھر کسی دوسری حکومت سے ایسی کوئی توقع رکھنا عبث ہوگا۔