بعد از خرابئ بسیار 

359

کراچی کی پولیس گزشتہ جمعرات کو ایک بار پھر اساتذہ پر ٹوٹ پڑی اور جم کر تشدد کیا۔ تصویریں گواہ ہیں کہ پولیس اپنا سارا غیظ و غضب نہتے اساتذہ پر اتار رہی ہے۔ دوسری طرف تکریم اساتذہ کے دن بھی منائے جاتے ہیں۔ کراچی پریس کلب کے باہر اساتذہ پر جس طرح لاٹھی چارج ہوا اور ان کو گھسیٹ گھسیٹ کر مارا گیا، شاید یہ ان کی تکریم کا سرکاری اظہار تھا۔ پولیس نے جو کچھ کیا اس کے پیچھے سندھ کے حکمرانوں کی رضا شامل تھی ورنہ اپنے طور پر ایسا تشدد نہ کرتی۔ پولیس کو بس اشارہ کرنے کی دیر ہوتی ہے اور پھر وہ بے لگام ہو جاتی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی پولیس کی دراز دستی کی وجہ سے رونما ہوا۔ کیا کراچی پولیس ایسے ہی کسی سانحے کو جنم دینا چاہتی ہے؟ حیرت اس پر ہے کہ احتجاج کرنے والے اساتذہ بھی مسلمان اور پاکستانی اور ان پر حملہ کرنے والی پولیس بھی پاکستانی اور مسلمان۔ لیکن کئی بار ایسا لگا جیسے حملہ کرنے والی پولیس غیر ملکی ہے یا وہ احتجاج کرنے والوں کو غیر ملکی اور دشمن سمجھتی ہے۔ دنیا بھر میں اساتذہ کا خصوصی احترام کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صرف یوم تکریم منا کر ان پر پولیس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ احتجاج کرنے والے این ٹی ایس پاس اساتذہ تھے جو بلاول ہاؤس جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے۔ بلاول زرداری اپنی سیاست مستحکم کرنے کے لیے ایسے معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں لیکن جمعرات کو اساتذہ کے احتجاج کا 12 واں دن تھا۔ نہتے اساتذہ کی خوب پٹائی کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی نوٹس لے لیا اور صوبائی وزیرداخلہ سہیل انور سیال نے بھی سندھ کی پولیس انہی کے ماتحت ہے۔ وزیرداخلہ نے ڈی آئی جی ویسٹ کو تحقیقاتی افسر مقرر کرکے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ یہ ان کی مہربانی ہے۔وزیراعلیٰ نے بھی بعد از خرابئ بسیار نہ صرف رپورٹ طلب کر لی بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ اساتذہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ان پر تشدد کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بہت اچھی بات ہے لیکن تشدد تو ہو رہا ہے اور برداشت بھی کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اساتذہ کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں اور احتجاج کرنے والے اساتذہ کو مستقل کرنے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ یہ کام تشدد سے پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اساتذہ کے تمام مسائل حل کروں گا، معیاری تعلیم کے حوالے سے مجھ سے تعاون کیا جائے۔ یہ پیشکش خوش آئند ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ معیاری تعلیم کی وضاحت بھی کر دیں اور موقع ملے تو محکمہ تعلیم سندھ کے ذمے داروں کی خبر بھی لے لیں جہاں آصف علی زرداری کے قریبی عزیز کی اجارہ داری ہے۔