ایک ایک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے رخصت

600

سال 2018ء کا آغاز ہی ہلاکت خیز ہوا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دینے کے لیے یکم جنوری کا انتخاب کیا تاہم اس شر میں سے تو ان شاء اللہ خیر برآمد ہوگا۔ ہلاکت خیزی سے مراد یہ ہے کہ پہلے ہی ہفتے میں کئی اہم شخصیات رخصت ہو گئیں۔ خواتین کی پسندیدہ شخصیت زبیدہ طارق عرف زبیدہ آپا چل بسیں۔ اگلے دن سیاست اور ادب کی دو بڑی شخصیتیں ریٹائرڈ ائرمارشل اصغر خان اور اردو شاعری کے ’’مارشل‘‘ رسا چغتائی چل بسے۔ دونوں نے بڑی لمبی عمر پائی لیکن موت سے کس کو رست گاری ہے۔ اصغر خان کے انتقال کے ساتھ ہی بھٹو کی آمریت کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا جانے والا پاکستان قومی اتحاد، جو 9جماعتوں پر مشتمل تھا، اس کا آخری ستارہ بھی غروب ہوگیا۔ مرحوم پاک فضائیہ کے پہلے سربراہ تھے اور یہ اعزاز انہوں نے 35 برس کی عمر میں حاصل کرکے دنیا میں ایک ریکارڈ بنایاتھا۔ انہوں نے پاک فضائیہ کو مستحکم کرنے اور جدید بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور کئی فضائی جنگوں میں حصہ لیا۔ ریٹائرہو کر سیاست میں آئے لیکن پاکستان کی سیاست کو بھی فضائیہ کی طرح برتا جس میں کبھی اونچی پرواز، کبھی نیچی پرواز اور ’’ائرپاکٹس‘‘ کا سامنا ہوتا ہے۔ انہوں نے تحریک استقلال کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی لیکن مرحوم کی اپنی طبیعت میں استقلال نہیں تھا چنانچہ سیاست میں ناکام رہے۔ ان کی جماعت میں ایک کارکن کی حیثیت سے شامل ہونے والے میاں محمد نوازشریف کہیں سے کہیں پہنچے اور انتخابی میدان میں اصغر خان کے مقابل آ کر انہیں شکست دی۔ اصغر خان پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے ہی جنرل ضیاء الحق کو خط لکھ کر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا مشورہ دیا تھا تاہم کئی حلقے اس کی تردید کرتے ہیں ۔ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کی کامیابی سے اصغر خان مرحوم کو گمان ہوا کہ آئندہ حکمران وہ ہی ہوں گے چنانچہ تنہا پرواز کا شوق پورا کیا اور فضائے بسیط میں گم ہوگئے۔ سیاست میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے کے باوجود ان کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں اور وہ داغ ندامت سے محفوظ رہے۔ اصغرخان نے اپنی یاد داشتوں پر مبنی ایک کتاب ’’تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘‘ کے عنوان سے لکھی جو 2005ء میں شائع ہوئی۔ اس میں ان کے مخاطب سیاست دان اور افواج پاکستان ہیں جنہوں نے تاریخ سے واقعی کچھ نہیں سیکھا۔ اس میں کئی اہم انکشافات ہیں ۔ ان کا یہ دعویٰ بھی بجا ہے کہ وہ ان افراد میں سے تھے جنہوں نے ایک نیا ملک بنتے دیکھا اور پاکستان کے قیام میں تھوڑا بہت حصہ بھی لیا۔ انہوں نے دسمبر1940ء میں رائل ائرفورس میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ گزشتہ جمعہ کو پاکستان کی سیاست کا یہ اہم باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ اسی دن اردو کے باکمال اور خوش فکر شاعر مرزا محتشم علی بیگ المعروف رسا چغتائی بھی اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ انہوں نے بھی تقریباً 90برس عمر پائی۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہ انتہائی مقبول تھے۔ ان کی خصوصیت چھوٹی بحر میں بڑی بات کہنا تھی۔ ان کے متعدد اشعار ضرب المثل بن گئے تھے۔ زبیدہ آپا اپنے ٹوٹکوں اور کھانے پکانے کی ترکیبوں کی وجہ سے خواتین میں بہت مقبول تھیں لیکن موت کے سامنے کوئی ٹوٹکا کام نہیں آتا۔ ان کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس کو بجا طور پر ہمہ آفتاب کہا جاسکتا ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا ان کی بڑی بہن تھیں اور انور مقصود ان کے بھائی ہیں ۔ ایک بہن زہرہ نگاہ بڑی اچھی شاعرہ ہیں لیکن ملک سے باہر رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کو جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ (آمین)