بلوچستان کا بحران دور تک اثر کرے گا

371

رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ مگر پسماندگی میں سرفہرست صوبہ بلوچستان سیاسی لحاظ سے عموماً بحران کا شکار رہتا ہے دوسری طرف یہ صوبہ انتہائی قیمتی معدنیات سے مالا مال اور طویل سمندری ساحل رکھتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کو بھی اسی صوبے میں فروغ دیا جارہا ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری کا اہم ترین حصہ ہے۔ تاہم اس وقت بلوچستان ایک نئے سیاسی بحران میں مبتلا ہے جو صرف اسی صوبے تک محدود رہتا نظر نہیں آتا بلکہ خیبر پختون خوا بھی اس کی لپیٹ میں آئے گا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بلوچستان میں ممکنہ اکھاڑ پچھاڑ کا اثر پورے ملک پر پڑ سکتا ہے اور خدشہ ہے کہ عام انتخابات بھی ملتوی نہ ہو جائیں۔ اگر بلوچستان اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے تو مارچ میں ہونے والے ایوان بالا کے انتخابات کھٹائی میں پڑ جائیں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے کئی ارکان نے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ اس کے روح و روان سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ہیں جنہوں نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے والوں کی تعداد 26تک پہنچ گئی ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور ایوان بالا کے نائب چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ عمران خان، آصف زرداری اور طاہر القادری کا ’’ٹرائیکا‘‘ مارچ سے پہلے پہلے وفاقی حکومت کو گرانے پرتلے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کوئی انکشاف بھی نہیں اور کئی سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ وفاقی حکومت کابوریا بستر جلد از جلد لپیٹ دیا جائے۔ حالاں کہ 2018ء انتخابات کا سال ہے اور حکومت کی مدت ختم ہونے میں اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ اگر ایسی کوئی سازش ہو رہی ہے تو اس سے گریز کرنا چاہیے اور اس وقت سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ یہ چند ماہ بغیر کسی اکھاڑ پچھاڑ اور بحران کے سکون سے گزر جائیں اور انتخابی مرحلہ بخیر و خوبی گزر جائے۔ اس کی ضرورت یوں بھی بڑھ گئی ہے کہ امریکا بار بار پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور ان پر عمل بھی شروع کردیا ہے۔ اس کے پیش نظر اس وقت قومی اتحاد اور اتفاق پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ چنانچہ بلوچستان اسمبلی اور شاید اس کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کر کے ایوان بالا کے انتخابات میں تو اڑچن ڈالی جاسکے اور عام انتخابات بھی شیڈول کے مطابق نہ ہوسکیں لیکن اس کے نتیجے میں ملک بھر میں فساد برپا ہوگا جو اس وقت بہت خطرناک ہے۔ پاکستان کو جو بیرونی اور اندرونی خطرات درپیش ہیں ان سے صرف نظر کرنا ملک و قوم کی خدمت نہیں ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے والے تمام 26ارکان بلوچستان اسمبلی کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ ن لیگ کے حمایتی مولانا فضل الرحمن بھی وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف ڈٹ گئے ہیں ۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام بھی گہرا اثر رسوخ رکھتی ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے آمریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی تحلیل کردی تھی تو فضل الرحمن کے والد مفتی محمود ( مرحوم) نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبہ سرحد کی اسمبلی بھی توڑ دی تھی۔ وہ اس وقت وزیر اعلیٰ سرحد تھے ۔ مرکز ی وزرا، وزیر داخلہ احسن اقبال اور طلال چودھری نے بھی بلوچستان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ مارچ میں ایوان بالا کے انتخابات کا انعقاد مشکل دکھائی دیتا ہے۔ خطرات کے پیش نظر اندرونی خلفشار اور بے یقینی کی کیفیت مہلک ثابت ہوگی۔ بلوچستان میں استعفوں اور دھرنوں کی صورت حال پاکستان کو خارجی سطح پر بھی کمزور کرے گی۔ یہ سب صحیح لیکن پروفیسر احسن اقبال یہ تو بتا دیں کہ ن لیگ کی حکومت بلوچستان کا بحران ٹالنے کے لیے کیا کررہی ہے۔ کیا وزیر اعظم نے ارکان صوبائی اسمبلی سے کوئی رابطہ کیا، کیا اپنے اتحادی مولانا فضل الرحمن کو سمجھانے کی کوشش کی یادور دور سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اس دوران میں ن لیگ کی ایک اور اتحادی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے انکشاف کیا ہے کہ اس بحران کی پشت پر کچھ غیر منتخب طاقتیں ہیں اور ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو فون کے ذریعے دھمکی دی جارہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی جائے ورنہ سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان غیر منتخب طاقتوں کا نام لینے میں خوف کیوں ہے۔ اس سے ان طاقتوں کی طرف شبہ جاتا ہے جن پر میاں نواز شریف انگلی اٹھاتے اور طاقت لسانی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ بلوچستان کے منتخب عوامی نمائندے خود اپنے طور پر فیصلہ کریں کہ ان کے صوبے اور ملک کے حق میں کیا ہے۔دھمکیوں سے ڈرنے والے عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتے۔ یاد رہے کہ موت کا وقت اور مقام طے ہے۔