مودودی بمقابلہ جناح؟

825

شاہنواز فاروقی

اس قرار داد کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ برطانوی سامراج سے سودے بازی کررہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ ہم عالمی جنگ میں تمہارے مددگار اس وقت بنیں گے جب تم ہندوستان میں ہمیں ہندوؤں کے مظالم سے نجات دلاؤ گے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودی کے اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں کا دین اصولوں کی پاسداری سکھاتا ہے ان پر سودے بازی نہیں۔ جنگ عظیم دوم انسانیت کے ساتھ ظلم کی ہولناک ترین صورت تھی اور کسی بھی مفاد کے لیے اس جنگ میں ظالموں کی حمایت کا کوئی مذہبی یا اخلاقی جواز نہیں تھا۔
اس سلسلے میں تیسری بات یہ ہے کہ مولانا نے قائد اعظم پر نومبر 1939ء میں اعتراض کیا۔ یہ مسلمانوں کی قیادت کے حوالے سے قائد اعظم کی زندگی اور فکر کا ابتدائی اور تشکیلی دور تھا۔ اس وقت تک لاہور میں وہ قرار داد بھی منظور نہ ہوئی تھی جس نے قیام پاکستان کی جدوجہد اور قائد اعظم کے مذہبی تصورات کو واضح صورت مہیا کی۔ قائد اعظم کوئی مذہبی اسکالر یا مفتی تو تھے نہیں کہ ان کی کتب موجود ہوتیں اور ان کو پڑھ کر مولانا مودودی سمیت کوئی بھی شخص ان کی مذہبی فکر اور مذہبی تناظر کے حوالے سے کوئی بھی رائے قائم کرسکتا تھا۔ قائد اعظم نے اسلام، قرآن پاک، سیرت طیبہ، شریعت مطاہرہ، اسلامی تہذیب کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا 1940ء سے 1948ء کے درمیان کہا۔ جب کہ قائد اعظم پر مولانا کا تبصرہ نومبر 1939ء میں سامنے آیا۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قائد اعظم کوئی عالم دین نہیں تھے، نہ انہوں نے کبھی خود کو عالم دین کہا۔ اقبال قائد اعظم سے کہیں زیادہ دین کا فہم رکھتے تھے مگر اقبال تک نے خود کو کبھی عالم دین باور نہ کرایا بلکہ وہ ہمیشہ دینی معاملات میں علما سے رجوع کرتے ہوئے پائے گئے۔ ویسے بھی دینی معاملات میں قائد اعظم حجت ہیں، نہ اقبال، نہ مولانا مودودی۔ دین پر سب سے بڑی حجت قرآن و سنت ہیں۔ دین کے دیگر شارحین کی اہمیت اس کے بعد ہے۔
ندیم ایف پراچہ نے اپنے کالم میں ایک اور مقام پر کئی جھوٹ گھڑے ہیں اور کئی غلط بیانیاں کی ہیں۔ ندیم ایف پراچہ نے لکھا۔
“in the february 1946 issue of the same journal moududi wrote that the ulema joining jinnah’s muslim League will suffer the same fate as ulma in turkey did at the hands of the secular turkish nationalist kamal ataturk. moududi wrote that this was because the fateof the pakistan movement. lay in the hands of those believed in a secular mode of politics and state.”
ہم نے ترجمان القرآن کے فروری 1946ء کے شمارے میں مولانا کا مضمون دیکھا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مولانا نے مضمون میں کہیں نہیں لکھا کہ مسلم لیگ میں شامل ہونے والے علما کا بھی وہی انجام ہوگا جو مصطفی کمال کا ساتھ دینے والے علما کا ترکی میں ہوا۔ نہ ہی مولانا نے پورے مضمون میں کہیں یہ تحریر کیا ہے کہ تحریک پاکستان کی قیادت ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے جو ’’سیکولر سیاست‘‘ اور ’’سیکولر ریاست‘‘ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ مولانا نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’میں مانتا ہوں کہ مسلم لیگ کے حلقے میں ایسے لوگوں کا بھی ایک بہت بڑا گروہ شامل ہے جو اخلاص کے ساتھ مسلمان ہیں اور سچے دل سے اسلام کی برتری چاہتے ہیں، مگر مجھے ان کی سادہ لوحی پر بڑا ترس آتا ہے۔ یہ بیچارے اسی نادانی کا ارتکاب کررہے ہیں جس کا ارتکاب ترکی کے بہت سے نیک مسلمانوں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد کیا تھا اور اس کا بُرا انجام دیکھ لیا۔ انہوں نے بھی اسی طرح قومی تحفظ کی خاطر (اور ’’مسلمان قوم‘‘ کا تحفظ تو ایک مقدس مذہبی کام بن ہی جاتا ہے) مصطفی کمال اور اس کی قوم پرست پارٹی کو زمام کار سونپی تھی۔ وہ بھی اس طرح مذہبی تاویلیں کرکے لادینی کی طرف اس کی پیش قدمی گوارا کرتے رہے‘‘۔
اس مضمون میں مولانا نے ایک اور جگہ لکھا۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عام مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے اسلام کا نام بہت لیا جاتا ہے اور ایسی نمائشی باتیں بھی کردی جاتی ہیں جن سے لیگ کے اکابر کے گہرے جذبہ دینی کا ثبوت بہم پہنچ جائے۔ مگر پورے نظام کی کار فرمائی ایک ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے جو زندگی کے جملہ مسائل میں دین کے بجائے دنیوی (secular) نقطہ نظر سے سوچنے اور کام کرنے والا ہے۔ اسلام کے بجائے مغربی اصول حیات کا معتقد اور مقلد ہے۔ (ترجمان القرآن۔ فروری 1946۔ بحوالہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان۔ حصہ دوم۔ صفحہ233-234)۔
مولانا کے مضمون کے ان اقتباسات کو دیکھا جائے تو مولانا یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ مسلم لیگ بظاہر اسلام اور اسلامی ریاست کے قیام ہی کی جدوجہد کررہی ہے مگر وہ مسلم قوم پرستی سے اوپر نہیں اُٹھ رہی ہے اور اس کے اکابرین اسلام سے زیادہ مغرب کے اصولِ حیات کے قائل ہیں۔ اس میں نہ کہیں قائد اعظم اور مسلم لیگ کی مخالفت ہے نہ کوئی مودودی بمقابلہ جناح کی صورت حال ہے۔ یہ مولانا کا ایک ایسا بصیرت افروز تجزیہ ہے جو بدقسمتی سے قائد اعظم کے انتقال کے بعد حقیقت بنتا چلا گیا۔ اس کا ایک ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اب پاکستان آئینی اعتبار سے ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ ہے مگر اس اسلامی ریاست میں اسلام کو آئین کے قید خانے سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ چناں چہ ریاست پاکستان کا سارا کاروبار مغرب کے اصولوں کے مطابق چل رہا ہے۔ مولانا مودودی کے تجزیے کے مطابق اس وقت ہمارا ظاہر اسلامی ہے اور باطن سیکولر۔ یہی معاملہ ہمارے حکمران طبقے کا ہے۔