کیا پاکستان بھی تعاون بند کردے گا

394

پاکستانی خبر رساں اداروں نے غیر ملکی خبر رساں اداروں کے حوالے سے خبر جاری کی ہے کہ پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کرنے پر غور شروع کیا ہے جس سے ٹرمپ انتظامیہ پریشان ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے جو بات کہی ہے وہ اس قسم کی کسی خبر کی تردید کے لیے کافی ہے کہ پاکستان نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ فضائی حدود پر پابندی یا زمینی راستے سے سپلائی روک رہا ہے۔ البتہ اس کے جواب میں ایک اور دھمکی آگئی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت ختم کرکے آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کو روک سکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے تو ساری پاکستانی قوم اور سیاسی قوتوں کے جذبات کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان امریکا کے ساتھ معاملات جاری رکھے گا کیوں کہ امریکا ایک عالمی طاقت ہے بلکہ وہ خطے میں بھی موجود ہے۔ اس اعتبار سے وہ تقریباً ہمارا پڑوسی ہی ہے۔ لہٰذا ہم حتیٰ الامکان امریکا کے ساتھ معاملات جاری رکھیں گے۔ گویا ٹرمپ کے بیان پر سارے ردعمل بے کار تھے۔ نیٹو سپلائی لائن بند کرنے کے بارے میں غور کیسے ہوگا جب کہ سیکرٹری خارجہ تو امریکا کو عالمی قوت اور پڑوسی گردان رہی ہیں۔ اس اعتبار سے تو بھارت بھی ایک بڑی طاقت اور امریکا سے زیادہ بڑا اور قریبی پڑوسی ہے پھر تو اس کے ساتھ بھی وہی رویہ رکھنا چاہیے۔ ایسے حالات میں جب کہ امریکی وزیر دفاع کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس کا رابطہ ہوا بھی ہے تو پھر یہ سارے بیانات کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خبر کام کرگئی ہو کہ پاکستان نیٹو سپلائی روکنے پر غور کررہا ہے اور پاکستان کو اس کا حق بھی ہے۔ کیوں کہ امریکا نے دفاعی تعاون ختم کیا ہے۔ پاکستان کو حملوں کی دھمکی دی ہے تو پھر اس کے ساتھ پاکستان کو بھی تعاون ختم کرنا چاہیے لیکن یہ سوال اپنی جگہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ کیا پاکستانی فوج اور حکمران نیٹو سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔