ٹویٹ دھمکیاں

281

بابا الف کے قلم سے

صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے ’’امریکا نے پاکستان کو 15سال میں احمقانہ طور پر 33 ارب ڈالر امداد دی جب کہ پاکستان نے اس امداد کے بدلے میں ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس نے ہماری قیادت کو بے وقوف سمجھا۔ امریکا جن دہشت گردوں کا افغانستان میں تعاقب کرتا ہے انہیں پکڑنے میں پاکستان نہ ہونے کے برابر مدد کرتا ہے بلکہ ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔‘‘ پتا نہیں یہ ٹویٹ لکھتے ہوئے صدرٹرمپ لال پیلے ہورہے تھے یا نہیں۔ ویسے تو وہ ہر وقت ہی لال پیلے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے دن اتنے نہیں جتنے امریکا میں میلے ٹھیلے ہوتے ہیں۔ ہر تاریخ کو کوئی نہ کوئی دن منایا جاتا ہے۔ 13جولائی کو فرنچ فرائز کا دن منایا جاتا ہے۔ آلو کو لمبائی میں کاٹ کرتلیں تو یہ آلو نہیں رہتے فرنچ فرائز بن جاتے ہیں۔ فرانس نے دہشت گردی کی جنگ سے گریز کرنا چاہا تو امریکا نے کہا اب ہم فرنچ فرائز کو فرنچ نہیں کہیں گے کسی اور نام سے پکاریں گے۔ جس دن صدر ٹرمپ نے یہ ٹویٹ کیا اس دن کو بھی اہل امریکا کو حکمرانوں، غلاموں یا کتوں کی خریداری سے انکار کا دن کہنا چاہیے۔ مذکورہ رقم امریکا نے پاکستان کو نہیں پاکستان کے حکمرانوں کی خریداری پر خرچ کی تھی۔ جہاں تک جھوٹ اور دھوکے کی بات ہے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ دنیا کی جہانبانی کرنے والے امریکا کو اتنی دہائیوں کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کی ان خوبیوں کا پتا چلا۔ جو حکمران اپنی قوم اور ملک کے نہیں۔ بے دریغ ملک وقوم سے جھوٹ بولتے اسے دھوکا دیتے ہیں۔ امریکا ان کی نظر میں کس شمار قطار میں۔
دھوکا دینے اور لوگوں کی جیب خالی کرنے میں دلّی کے جیب تراشوں کا جواب نہیں تھا۔ دلی کے باہر سے آئے ہوئے ایک شخص نے ان گرہ کٹوں کے گرو کو چیلنج دیا کہ میں چاردن تک دلی کے گلی کوچوں میں گھوموں پھروں گا تمہاراکوئی چیلا میری جیب کاٹ کر دکھائے۔ گرو نے چیلنج قبول کرلیا۔ چوتھے روز وہ صاحب فاتحانہ شان سے آئے۔ بولے ’’دیکھا میں نہ کہتا تھا تمہارا کوئی چیلا میری جیب نہیں کاٹ سکتا۔ چاردن سے تمہارے شہر میں پھر رہا ہوں جیب کاٹنا تو درکنار کوئی جیب کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکا۔‘‘ گرو کو بڑی حیرت ہوئی۔ چیلوں سے پوچھا۔ ایک چیلا آگے بڑھا اور بولا ’’اس کی جیب میں تھا ہی کیا؟ چار دن سے جیب میں اٹھنی (ایک روپے کا نصف) لیے لیے پھر رہے ہیں۔ میں نے نکالی اور واپس رکھ دی۔ اب اتنی سی رقم کے لیے کیا منہ کالا کرنا‘‘۔ یہ ہم نے خواجہ حسن نظامی سے منسوب ایک قصہ کی ’’تضمین‘‘ کردی ہے۔ پاکستان کے حکمران بھی ایسے ہی ماہر ہیں۔ ان کا کوئی ثانی نہیں۔ آنکھ میں سے سرمہ نکال لیں مجال ہے کسی کو خبر ہوجائے۔ صدر ایوب نے پاکستان کے دریا بھارت کو دے دیے کسی کو خبر نہ ہوئی۔ جنرل یحییٰ اور بھٹو نے مل کر آدھا پاکستان گنوا دیا۔ سقوط مشرقی پاکستان کا اعلان ہونے کے بعد ہی اہل پاکستان کو خبر ہوئی اور وہ احتجاج کرتے سڑکوں پر نکلے۔ بھٹو جیسا زیرک اور جہاں دیدہ آدمی کس آسانی سے جنرل ضیاء الحق کے جھانسے میں آگیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سیاچن بھارت کے سپرد کردیا اور قوم کے سامنے تو جیہہ پیش کی کہ وہاں تو گھاس کی پتی نہیں اگتی۔ قوم کو آج تک مرد مومن کی اس بات پر یقین ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے پورا پاکستان امریکا کے سپرد کردیا۔ ڈالروں کی جھنکار پر کمر لہراتے ہوئے افغانستان کے مسلمانوں کا خون امریکا کو بیچ دیا اور قوم ان کے مکے دیکھ کر خوش ہوتی رہی۔ موجودہ حکمرانوں نے تین سو ارب روپے ملک سے باہر بھیج دیے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ دھوکا دینے میں پاکستان کے حکمرانوں اور اہل پاکستان کا جواب نہیں۔
معتزلہ کے بانی واصل امام حسن بصری کے شاگرد تھے۔ متبحر عالم، جید ادیب، بے مثال خطیب۔ ان کی زبان سے حرف ’’ر‘‘ کا صحیح تلفظ ادا نہیں ہوتا تھا۔ ایک بار کسی شخص نے سوال کیا ’’رکب فرسہ وجرر محہ (وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور نیزہ تان لیا)‘‘۔ یہ ایسا جملہ ہے کہ اس کے ہر لفظ میں ’’ر‘‘ آتا ہے واصل نے جواب دیا ’’استوی علی جوادہ وسحب عاملہ (وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور نیزہ کھینچا)‘ ایک شاعر نے ان کی مدح میں کہا تھا ’’وہ ایک حرف کے بجائے دوسرا حرف استعمال کرنا جانتے ہیں اور ہر مقرر کو شکست دے دیتے ہیں۔ ان کی غلط رائے بھی دوسروں کی صحیح رائے پر غالب آجاتی ہے۔‘‘ یہ مثبت جملے ہیں لیکن ہمارے حکمران حوالہ ہوں تو ہر صحیح بات غلط ہوجاتی ہے۔ ہمارے حکمران لفظوں کے کھلاڑی ہیں۔ وہ ہر سچ کو شکست دے سکتے ہیں۔ اپنی کذب بیانی اور لاف زنی سے وہ ہر ایک کی رائے پر غالب آجاتے ہیں۔ دیکھ لیجیے نوازشریف کس مہارت سے اپنے مالیاتی جرائم اور مظالم کی حسن وخوبی سے تردید کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے بیان پر کیسے کیسے غصے سے لبریز بیانات سامنے آرہے ہیں۔ ارے اللہ کے بندو یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہاں ہم نے یہ ڈالر لیے ہیں اور ملک وقوم پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کیے ہیں۔ یہ ایک ملی بھگت تھی۔ امریکا بھی اتنا سادہ نہیں اور پاکستانی حکمران بھی۔ سادہ اور بیوقوف تو پاکستانی قوم ہے جسے یہ قرضہ ادا کرنا ہے۔ جس کا ہر فرد ایک لاکھ سے زیادہ رقم کا مقروض ہے۔ حکمرانوں کی جو شیلی تقریریں قوم کا غصہ کم کرنے کی کوششیں ہیں۔ امریکا کے جرائم میں یہ بھی شریک رہے ہیں۔
ہمیں خبر ہے چوروں کے ہر ٹھکانے کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ایک پروفیسر نے دوران لیکچر ایک لطیفہ سنایا۔ چار لڑکے ہنسے۔ بقیہ کلاس پر سناٹا رہا۔ پروفیسر صاحب نے دوبارہ وہی لطیفہ سنایا۔ اس مرتبہ دو لڑکے ہنسے۔ بقیہ کلاس پر سناٹا طاری رہا۔ پروفیسر نے تیسری مرتبہ وہی لطیفہ سنایا۔ کوئی نہیں ہنسا۔ پوری کلاس پر سناٹا طاری رہا۔ پروفیسر نے کہا دیکھو ایک ہی لطیفہ ہم بار بار نہیں سن سکتے۔ ہم بور ہوجاتے ہیں۔ امریکی امداد کی بندش بھی ایک ایسا ہی لطیفہ ہے جسے بار بار سن کر ہم بور ہوچکے تھے۔ شکر ہے یہ امداد بند کردی گئی۔ امریکی ڈالرز نہ امداد تھے اور نہ بھیک میں دی گئی رقم۔ یہ وہ رقم تھی جس میں سے ہمارے حکمرانوں نے اپنا حصہ وصول کرکے باقی رقم امریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے فوج کے حوالے کردی۔ یہ رقم ایسی پالیسیاں نا فذ کرنے کے لیے استعمال کی گئی جس کے نتیجے میں ہماری معیشت برباد ہوگئی۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں ہماری معیشت کو اب تک 123.1 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ 80ہزار سے زاید پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ کھو بیٹھے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی دھمکی پاکستان کو نشانہ بنانے کی مہم کا آغاز ہے۔ اس پر کم ازکم پاکستان کے حکمرانوں کو تو کئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار مبہم الفاظ میں کسی آنے والے خطرے کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ امداد کی یہ بندش شروعات ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا موقف ہے کہ پاکستان افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک اور کشمیر میں لشکر طیبہ کی حمایت کرتا ہے۔ امریکا کے نزدیک اپنے وطن کے لیے لڑنے اور امریکی قابض افواج سے اپنے وطن کو نجات دلانے کے لیے جہاد کرنے والے طالبان اور حقانی نیٹ ورک دہشت گرد ہیں اسی طرح کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی لشکر طیبہ بھارت کے لیے دہشت گرد تنظیم ہے۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک یہ تینوں جماعتیں مجاہدین کا لشکر ہیں جو اپنے وطن کے دفاع اور اسلام کی سربلندی کے لیے برسر پیکار ہیں اور ہماری مدد اور حمایت کی مستحق ہیں۔ اگر پاکستان ان کی مدد کررہا ہے تو اس فرض کی ادائیگی کررہا ہے جو امت مسلمہ کا ایک حصہ ہونے کی بنا پر اس پرلازم ہے۔ پاکستان نے امریکا سے تعاون کرکے اہل افغانستان کی پیٹھ میں جو خنجر گھونپا تھا شاید یہ اس غداری کا مداوا ہوسکے۔ اس راہ میں اگر ہمیں مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے تو گھبرانے کی بات نہیں۔ امریکا ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ پاکستان ایران نہیں ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے۔