تحریک عدل یا تکذیب عدل

376

نا اہل وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے کہا ہے کہ نواز شریف کا ہر جلسہ تحریک عدل ہے۔ ایک کے بعد ایک سازش کے باوجود مسلم لیگ ن الیکشن جیتے گی۔ اس کو تو سیاسی بیان کہا جاسکتا تھا اور ایک باپ کے خلاف عدالتی فیصلے پر بیٹی کے جذبات سے تعبیر کیا جاسکتا تھا لیکن وزیر اعظم پاکستان جناب شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نواز شریف ہمارے لیڈر ہیں ان کے خلاف عدالتی فیصلہ ردی کی ٹوکری میں جائے گا۔ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں پولنگ اسٹیشنوں پر ہوتے ہیں ۔ جب بھی ایسا ہوا ان فیصلوں کو کبھی عوام مانیں گے اور نہ تاریخ قبول کرے گی۔ اس بیان سے اندازہ ہوگیا کہ یہ ہے تحریک عدل۔ یہ عجیب و غریب رویہ پورے ملک میں ایک منفی تاثر پیدا کررہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ عدالتیں سیاسی معاملات میں مداخلت کررہی ہیں اور کسی کی کامیابی کو انتخابی شکست میں تبدیل کررہی ہیں ۔ میاں نواز شریف کو جن بنیادوں پر نا اہل قرار دیا گیا ہے وہ سیاسی ہرگز نہیں۔ اگر ان کو چیلنج کرنا ہے تو عدالتوں سے رجوع کریں اگر چیلنج نہیں کرسکتے تو جس وقت یہ ٹریبونل میں آئے تھے یہ مقدمہ زیر سماعت تھا اس وقت کسی کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آئی کہ اپنی عدالت میں اپنا مقدمہ کیوں چلنے دیا۔ اس وقت تو وزیر اعظم بھی اہل تھے اور ان کی بیٹی بھی۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ لوگ ملک چلانے کے اہل بھی نہیں اور حکومت چلانے کے بھی۔ اب مریم نواز بتا رہی ہیں کہ میاں نواز شریف تحریک عدل چلا رہے ہیں جبکہ حکومت کے وزرا فرما رہے ہیں کہ عدالتوں کے تمام فیصلے تسلیم کریں گے اگر عدالتوں کے فیصلے تسلیم کریں گے اور عدالتوں کا احترام کریں گے تو پھر تحریک عدل کس کے لیے اور کس کے خلاف، کس کے حق میں ہے۔ یہ بات تو تین مرتبہ واضح ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ بھی پیپلز پارٹی کی طرح عدل والی حکومت یا حکمران کی قائل نہیں ان کے دور میں بھی کبھی عوام کو عدل نہیں ملا۔ اگر میاں صاحب یا ان کی اولاد کے نزدیک عدل صرف یہی ہے کہ میاں نوازشریف کو اہل قرار دیا جائے اور ملک میں سیاہ و سفید کا مالک رہنے دیا جائے تو پھر یہ عدل کا قتل ہے۔ یہ بات جلسوں میں کہتے ہیں تو اچھی لگتی ہے کہ ہمارا ہر جلسہ اور پریس کانفرنس تحریک عدل ہے لیکن معنوی اعتبار سے اور مسلم لیگ ن کے ادوار کے تجربات کی روشنی میں ان کا ہر دور ہر عمل تکذیب عدل کے مترادف ہے۔ اس سے بڑھ کر خرابی وزیر اعظم نے کردی۔ خدا معلوم چیف جسٹس یہ نیا باب کھولیں گے یا نہیں کہ وزیر اعظم نے حد کردی ہے۔ عدالتی فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ اب حکومت بھی کھل کر عدالت کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ پاکستان میں اب حکومت کے صرف دو کام رہ گئے ہیں تیزی کے ساتھ مختلف منصوبوں کا افتتاح کرنا ، ایک اور وعدہ پورا کرنے کا دعویٰ کرنا اور میاں نوازشریف کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملانا۔ ان کے ہر عمل کو بہترین اور ان کے خلاف ہر احتسابی کارروائی کو ملک کے خلاف سازش قرار دینا ان کا اولین فرض ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں حالات پر حکومت کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ قومی معاملات میں عوام کے مفادات کے تحفظ پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ جن منصوبوں کا افتتاح ہو رہا ہے یا جس سی پیک پر فخریہ بیانات دیے جارہے ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کو مقروض بنانے والے اقدامات پر حکومت کی نظر نہیں ہے بلکہ وہ اس پر نظر رکھنا بھی نہیں چاہیے۔ وزیر اعظم سمیت پوری مسلم لیگ اور کابینہ کی نظریں 2018ء کے انتخابات پر ہیں وزیر اعظم کا ہر دوسرے روز یہی بیان ہوتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات ہم جیتیں گے۔ مریم نواز نے بھی یہی کہا اور وزیر اعظم بھی یہی کہہ رہے ہیں جب وہ اتنی ہمت رکھتے ہیں کہ عدالتوں کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے تو پھر الیکشن کمیشن کی کیا اوقات۔ اس کے فیصلے کو تو جوتے کی نوک پر رکھیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ 1998, 1999 یا 2001ء کی طرح قومی اتحاد آئی جے آئی یا ایم ایم اے نہیں بن رہی بلکہ اپوزیشن بری طرح تقسیم ہے اس اپوزیشن میں بعض عناصر کی سرگرمیاں اور اقدامات بسا اوقات یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ اب بھی میاں نواز شریف کی حمایت کررہی ہے۔ کبھی عمران خان کو اپوزیشن ہی کی کسی جماعت سے نقصان پہنچتا ہے کبھی پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کے ذریعے حکومت کو سنبھالا دیتی ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کا فائدہ تو حکومت ہی اٹھائے گی۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں پولنگ اسٹیشنوں پر ہوتے ہیں ، بجا ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے کسی فیصلے میں میاں نواز شریف کی نشستوں اور ووٹوں کی تعداد یا مخالف کی کامیابی کا نوٹیفکیشن تو نہیں ہے۔ ان کا معاملہ توحقائق چھپانے سے متعلق ہے۔ یہ درست ہے کہ معاملہ پاناما سے شروع ہوا اور اقاما اور تنخواہ کہیں سے آگئے۔ اس کو کسی عدالت میں چیلنج کریں ورنہ انتظار کریں اگلی حکومت آنے کے بعد اور نئی عدالت عظمیٰ یا اس کے نئے ججوں کی آمد کے بعد وہی کریں جو پیپلز پارٹی نے کیا۔ اس نے 37برس بعد بھٹو کی سزائے موت کو عدالتی قتل قرار دے دیا آپ بھی کم از کم 25برس تو انتظار کریں اس کے بعد اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکیں یا کچھ بھی کریں۔ فی الحال تو جو عدالت عظمیٰ ہے ایک بڑے منصب کے حامل شخص شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اس کی اس سے زیادہ توہین نہیں کی جاسکتی تھی۔ وزیر اعظم میاں صاحب کی چمچہ گیری جیسے کام میں لگ گئے ہیں۔ خواہ وہ آپ کی پارٹی کے سربراہ ہوں یا آپ کے لیے پیر کا درجہ رکھتے ہوں آپ کا منصب عدالت عظمیٰ کے بارے میں ایسے جملے کہنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اگر ملک کے طول و عرض کا جائزہ لیں تو شاہد خاقان عباسی کے پاکستان میں عدل کہیں نہیں ہے صرف تکذیب عدل ہو رہی ہے۔ اگر عدالتیں تھوڑا بہت انصاف کررہی ہیں کہیں 17برس بعد کہیں بے گناہ شخص کی موت کے بعد اسے بے قصور قرار دے رہی ہیں تو انہیں کام تو کرنے دیں۔ ردی کی ٹوکری میں دنیا کے ایسے تمام حکمران پھینکے جائیں گے جو اپنے عوام کو عدل و انصاف نہیں دے سکتے۔