دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

747

نیا سالِ عیسویں شروع ہوتا ہے تو بے اختیار مرزا غالبؔ یاد آجاتے ہیں جنہوں نے برسوں پہلے کہا تھا
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ سال اچھا ہے
آپ ’’عشاق‘‘ کی جگہ عوام اور ’’بتوں‘‘ کی جگہ لیڈروں کو فرض کرلیجیے تو شعر عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق بامعنی ہوجاتا ہے۔ رہا ’’برہمن‘‘ جس نے سالِ نو کے اچھا ہونے کی پیش گوئی کی ہے تو اگرچہ موجودہ زمانے میں وہ برہمن نہیں رہے جو غالبؔ کے زمانے میں پائے جاتے تھے لیکن ان کی جگہ ٹی وی اینکرز، خود ساختہ تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں نے لے لی ہے۔ گویا۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ اب برہمنوں کا کال نہیں رہا۔ وہ شام ڈھلے ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر ایسی ایسی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں کہ آدمی عش عش کر اُٹھتا ہے۔ جہاں تک کالم نگاروں کا تعلق ہے تو انہیں بھی مستقبل کا نقشہ کھینچنے میں یدطولیٰ حاصل ہے۔ دور کیوں جائیے ہم آج یعنی سال کے پہلے دن ہی بہت سے کالم نگاروں کی تحریریں پڑھ چکے ہیں جن میں ہر ایک نے نئے سال کے بارے میں اپنی بقراطی جھاڑی ہے اور گزرے ہوئے سال کا نوحہ لکھا ہے لیکن صاحب ہم تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ ہمیں بھی آپ یکے ازعشاق سمجھیے جو بتوں کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اِن بتوں میں سے ایک بُت جسے اپنی بڑائی کا دعویٰ ہے اِن دنوں قسمت کے پھیر میں آیا ہوا ہے۔ چار ساڑھے چار سال پہلے تک وہ تخت اقتدار پر فائز تھا، ایوان وزیراعظم میں اس کے دم سے رونقیں تھیں، مشیروں، مصاحبوں اور خوشاآمدیوں کی ایک فوج ظفر موج ہر وقت اس کے حضور حاضر رہتی تھی، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے احباب خاص کے علاوہ کسی سے ملنا پسند نہیں کرتا تھا، اس کی کابینہ کے ارکان، اس کی پارٹی کے اہم افراد اس سے ملنے کے لیے ترستے رہتے تھے اب اس کا ستارہ گردش میں آیا ہے تو یہ سب لوگ اسے پیارے ہوگئے ہیں اور وہ اب انہیں اپنے مشوروں میں شریک کررہا ہے۔ پچھلا سال اس پر بہت بھاری گزرا اسے ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اقتدار سے نکال دیا گیا، اب اس کا سارا وقت اسی گردان میں گزر رہا ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ کہتے ہیں کہ اس کے عشاق کی تعداد کم نہیں ہے لیکن اسے ان پر بھروسا نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ نعرے تو لگاتے ہیں کہ ’’قدم بڑھائے نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ لیکن جب وہ قدم بڑھانے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو سناٹا نظر آتا ہے۔ وہ ماضی میں عشاق کی اس بیوفائی کا تجربہ کرچکا ہے، اس وقت وہ احتساب کی زد میں ہے، اسے آئے دن احتساب عدالت میں پیش ہونا پڑ رہا ہے، اس صورت حال سے بچنے کے لیے وہ نئے امکانات کی تلاش میں ہے۔ نیا سال اس کے لیے اُمید و بیم کا سال ہے، تخت یا تختہ۔ پچھلے سال بہت کچھ ہوا اب نئے سال میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اس کی سعودی عرب یاترا کو بھی نئے نئے مفہوم پہنائے جارہے ہیں اور تجزیہ کار اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ نیا این آر او ہونے والا ہے، کسی کا کہنا ہے کہ این آر او نہیں کوئی اور کھچڑی پک رہی ہے جس کا پتا اس وقت چلے گا جب برتن سے ڈھکن اُٹھے گا۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کے عشاق مخمصے میں ہیں کہ اگر ان کا لیڈر مائنس ہوگیا تو ان کا کیا بنے گا۔
پیپلز پارٹی بھٹو کے بُت کی پوجا کررہی ہے جسے گزرے ہوئے ایک زمانہ ہوگیا۔ پہلے بے نظیر بھٹو اس بُت کو کارنس پہ سجا کر اپنی مقبولیت کا جادو جگاتی رہیں وہ قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئیں تو ان کے شوہر نے اس بت پر قبضہ کرلیا اور اس بت کی میراث پر اپنا حق جتانے لگے، لیکن بات نہ بنی تو اپنے بیٹے کو آگے لے آئے اور اس کے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگا کر پیپلز پارٹی کے عشاق کو اپنی جانب مائل کرنے لگے لیکن سندھ کے سوا ملک میں سناٹا ہی رہا۔ وہ سندھ میں بھٹو کو بیچنے میں کامیاب رہے پھر وہ صوبائی حکومت پر قابض ہو کر صوبے کے وسائل کو بیچنے اور دولت جمع کرنے میں لگے رہے۔ اب حال یہ ہے کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے عشاق بیزار ہیں، وہ ’’اب کی باری پھر زرداری‘‘ کے نعروں سے اُکتاہٹ کا اظہار کررہے ہیں۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنے ہی بت فروشوں کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہوچکی ہے۔ ’’بلاول بھٹو زرداری‘‘ کے نام سے نیا بت بھی کوئی گل نہیں کھلا سکا۔ نیا سال انتخابات کا سال ہے لیکن زرداری کے دامن میں کرپشن کے سوا کوئی اور کارنامہ نہیں جو پارٹی کے عشاق یعنی عوام کے سامنے پیش کرسکیں۔ وہ جوڑ توڑ کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، اسی لیے طاہر القادری کی اے پی سی میں شریک ہو کر شریفوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ نئے انتخابات کا بگل بجے گا تو پتا چلے گا کہ زرداری پارٹی کتنے پانی میں ہے۔
ایک اور بت جس کا ان دنوں بہت چرچا ہے وہ تحریک انصاف کے کپتان کا ہے۔ عشاق نے اس بت کو بھی اپنے دلوں میں سجا رکھا ہے، فیس بک پر بھی اس کے عشاق کی تعداد کم نہیں ہے۔ کپتان کا دعویٰ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی ورنہ وہ پاکستان کا وزیراعظم بن چکا ہوتا اور ملک کی وہ حالت نہ ہوتی جو اس وقت ہے۔ اس نے چار ساڑھے چار سال اسی کسر کو پورا کرنے میں گزار دیے، دھرنے دیے، امپائر کو اُکسایا، عدالتوں کے چکر کاٹے، آخر اس کی کوششیں رنگ لائیں اور اس کا سیاسی حریف اقتدار سے آؤٹ ہوگیا لیکن اقتدار پھر بھی اس کے ہاتھ نہ آسکا۔ وہ بہت جلدی میں ہے اور چاہتا ہے کہ کل نہیں‘ آج ہی انتخابات ہوجائیں اور وہ جیت کر وزیراعظم بن جائے۔ اس کے نزدیک یہ بات طے ہے کہ اب کی دفعہ انتخابات ہوئے تو وہی جیتے گا۔ اس مقصد کے لیے اس نے پیپلز پارٹی سے ایلیکٹ ایبلز (ELECTABLES) کا کچرا اکٹھا کرلیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ جونہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا، مسلم لیگ (ن) کے موسمی پرندے بھی اُڑان بھر کر تحریک انصاف کی شاخ زرین پر بیٹھ جائیں گے، پھر اسے کوئی بھی انتخابات جیتنے سے نہیں روک سکے گا۔ وہ اپنے دوستوں کو یہ باور کراتا رہتا ہے کہ فکر نہ کرو ملک کی بادشاہ گر قوتیں بھی اس کے حق میں ہیں اور اسے ’’بادشاہ‘‘ دیکھنا چاہتی ہیں۔
اب آخر میں جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق کا تذکرہ۔ ان کے عشاق تو یقیناًبہت ہیں لیکن خود وہ بت نہیں بت شکن واقع ہوئے ہیں اور ان دنوں اسی مہم پر ہیں کہ ملک کو سیاسی عصبیت کے بتوں سے پاک کرکے اسے خدائے واحد کی بندگی والے نظام سے جوڑ دیا جائے۔ ان سیاسی بتوں نے اپنے عشاق کو بھی بہت رسوا کیا ہے اور اس ملک کو بھی ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب ’’میری باری تیری باری‘‘ کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے لیکن یہ سلسلہ عشاقِ پاکستان کے سوا اور کون ختم کرسکتا ہے، البتہ دل کو بہلانے کے لیے غالبؔ کا یہ شعر کیا بُرا ہے؂
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے