آداب ِ زندگی

312

مولانا یوسف اصلاحی
لباس کے آداب
-1 لباس ایسا پہنیں جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی اور حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرے اور جس سے تہذیب و سلیقہ اور زینت و جمال کا اظہار ہو۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔
’’اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے زینت اور حفاظت کا ذریعہ بھی ہو‘‘۔ (الاعراف)
ریش دراصل پرندے کے پروں کو کہتے ہیں۔ پرندے کے پر اس کے لیے حسن و جمال کا بھی ذریعہ ہیں اور جسم کی حفاظت کا بھی۔ عام استعمال میں ریش کا لفظ جمال و زینت اور عمدہ لباس کے لیے بولا جاتا ہے۔
لباس کا مقصد زینت و آرائش اور موسمی اثرات سے حفاظت بھی ہے لیکن اولین مقصد قابل شرم حصوں کی ستر پوشی ہے۔ خدا نے شرم و حیا انسان کی فطرت میں پیدا فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدم ؑاور حضرت حوّا ؑسے جنت کا لباس فاخرہ اتروالیا گیا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے۔ اس لیے لباس میں اس مقصد کو سب سے مقدم سمجھیں اور ایسا لباس منتخب کیجیے جس سے ستر پوشی کا مقصد بخوبی پورا ہوسکے۔ ساتھ ہی اس کا بھی اہتمام رہے کہ لباس موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کرنے والا بھی ہو اور ایسا سلیقے کا لباس ہو جو زینت و جمال اور تہذیب کا بھی ذریعہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اُسے پہن کر آپ کوئی عجوبہ یا کھلونا بن جائیں اور لوگوں کے لیے ہنسی اور دل لگی کا موضوع مہیا ہوجائے۔
-2 لباس پہنتے وقت یہ سوچیے کہ یہ وہ نعمت ہے جس سے خدا نے صرف انسان کو نوازا ہے۔ دوسری مخلوقات اس سے محروم ہیں۔ اس امتیازی بخشش و انعام پر خدا کا شکر ادا کیجیے اور اس امتیازی انعام سے سرفراز ہو کر کبھی خدا کی ناشکری اور نافرمانی کا عمل نہ کیجیے۔ لباس خدا کی ایک زبردست نشانی ہے۔ لباس پہنیں تو اس احساس کو تازہ کیجیے اور جذباتِ شکر کا اظہار اس دُعا کے الفاظ میں کیجیے جو نبیؐ نے مومنوں کو سکھائی ہے۔
-3 بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ تقویٰ کے لباس سے باطنی پاکیزگی بھی مراد ہے اور ظاہری پرہیز گاری کا لباس بھی۔ یعنی ایسا لباس پہنیے جو شریعت کی نظر میں پرہیز گاروں کا لباس ہو، جس سے تکبر و غرور کا اظہار نہ ہو، جو نہ عورتوں کے لیے مردوں سے مشابہت کا ذریعہ ہو اور نہ مردوں کے لیے عورتوں سے مشابہت کا۔ ایسا لباس پہنیے جس کو دیکھ کر محسوس ہوسکے کہ لباس پہننے والا کوئی خدا ترس اور بھلا انسان ہے اور عورتیں لباس میں ان حدود کا لحاظ کریں جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کی ہیں اور مرد ان حدود کا لحاظ کریں جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کی ہیں۔
-4 نیا لباس پہنیں تو کپڑے کا نام لے کر خوشی کا اظہار کیجیے کہ خدا نے اپنے فضل و کرم سے یہ کپڑا عنایت فرمایا اور شکر کے جذبات سے سرشار ہو کر نیا لباس پہننے کی وہ دعا پڑھیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا، عمامہ، کرتا یا چادر پہنتے تو اس کا نام لے کر فرماتے۔
’’خدایا تیرا شکر ہے تونے مجھے یہ لباس پہنایا۔ میں تجھ سے اس کے خیر کا خواہاں ہوں اور میں اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، اس لباس کی برائی سے اور اس کے مقصد کے اس بُرے پہلو سے جس کے لیے یہ بنایا ہے‘‘۔ (ابودائود)
دُعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا تو مجھے توفیق دے کہ میں تیرا بخشا ہوا یہ لباس انہی مقاصد کے لیے استعمال کروں جو تیرے نزدیک پاکیزہ مقاصد ہیں۔ مجھے توفیق دے کہ میں اس سے اپنی سرپوشی کرسکوں، اور بے شرمی، بے حیائی کی باتوں سے اپنے ظاہر و باطن کو محفوظ رکھ سکوں اور شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے میں اس کے ذریعے اپنے جسم کی حفاظت کرسکوں، اور اس کو زینت و جمال کا ذریعہ بنا سکوں، کپڑے پہن کر نہ تو دوسروں پر اپنی بڑائی جتائوں، نہ غرور اور تکبر کروں، اور نہ تیری اس نعمت کو استعمال کرنے میں شریعت کی ان حدود کو توڑوں جو تو نے اپنے بندوں اور بندیوں کے لیے مقرر فرمائی ہیں۔