کشمیر میں ’’پوسٹر بوائے‘‘ کہلانے والے برھان وانی کے بعد جو تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں ان میں تازہ اضافہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پی ایچ ڈی اسکالر عبدالمنان وانی کی ہے جس میں وہ قلم وقرطاس کے بجائے ایک مسلح نوجوان کی شکل میں دوسرے نوجوانوں سے معانقہ اور مصافحہ کر رہا ہے۔ اس تصویر نے بھی برھان وانی کی تصاویر کی طرح کشمیر کے نوجوانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے۔ شمال کی خوب صورت وادی لولاب سے تعلق رکھنے والا یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کشمیر میں تیزی سے فروغ پزیر اس رجحان کی عکاسی کر رہا ہے جس کے تحت وادی کے مقامی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
پچیس سالہ عبدالمنان وانی چار سال سے بھارت کی تاریخی دانش گاہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں زیر تعلیم تھا اور چھٹیاں گزارنے گھر آیا تھا کہ اسی دوران نوجوان کی تصویریں سوشل میڈیا میں عام ہوئیں جن میں وہ ایک پی ایچ ڈی اسکالر کے بجائے ایک مسلح نوجوان کی شکل میں سامنے آگیا۔ عبدالمنان وانی کا یہ رنگ وروپ ان کے گھر والوں کے لیے بھی اچھنبے کا باعث تھا۔ عبدالمنان وانی کا پروفائل لوگوں کو مزید حیرت زدہ کر گیا کہ وہ علم دوست گھرانے کا فرد ہے اور برھان وانی کی طرح اس کے والد بھی سرکاری کالج میں لیکچرار ہیں۔ نوجوان کا بھائی جونیئر انجینئر کے طور پر کام کررہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر برھان وانی ہی کی طرح یہ نوجوان بھی بھارتی فوجیوں کی بدسلوکی کے باعث غصے اور ردعمل میں معمول کی زندگی تج کر بندوق تھامنے چل پڑا۔ متعدد بار بھارتی فوجیوں نے اس کی وضع قطع کے باعث طعن اور تضحیک کا نشانہ بنایا۔ روح کو گھائل اور انا کو مجروح کرنے والے ان سوالات اور تحقیر آمیز سلوک نے عبدالمنان وانی کی ذہنی کایا پلٹ میں بنیادی کردار ادا کیا۔
بھارت نے کشمیر کی تحریک مزاحمت کے حوالے سے جو پروپیگنڈہ کیا اس کی بنیاد کئی مغالطے تھے۔ بھارت نے دنیا بھر میں کشمیر کی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے اسے کراس بارڈر ٹیرز ازم کا نام دیا گویا وادی میں جاری تحریک سرحد پار سے ہونے والی دراندازی ہے۔ آزادکشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے نوجوان کنٹرول لائن عبور کر کشمیر میں گڑ بڑ پھیلاتے ہیں۔ اس طرح بھارت اس تحریک کو لشکر طیبہ اور جیش محمد کے غیر مقامی نوجوانوں کی تحریک قراردیتا رہا۔ بھارت کا دوسرا مغالطہ یہ تھا کہ کشمیر میں جو مقامی عنصر مبینہ ’’دراندازوں‘‘ کی حمایت کرتا ہے اس کی وجہ بے روزگاری ہے۔ بھارت سے کشمیر کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے لیے آنے والے سول سوسائٹی اور این جی اوز کے وفود نے بے روزگاری کو ایک اہم مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اکثر نے اپنی رپورٹس میں لکھنا ضروری سمجھا کہ روزگار کا مسئلہ حل کرکے بھارت کشمیری نوجوان کو مطمئن کر سکتا ہے۔ برھان وانی جس مسلح تحریک کی علامت بن کر اُبھرا اس نے یہ دونوں مغالطے ہوا میں تحلیل کر دیے۔ اس نوجوان کے بعد وادی کے مقامی نوجوان بڑی تعداد میں ایک مقامی تنظیم حزب المجاہدین کے بینر تلے جمع ہونا شروع ہوئے اور یوں تحریک کا مقامی رنگ مزید گہرا ہوگیا۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ کشمیر میں جاری تحریک دراندازی نہیں بلکہ مقامی نوجوان کی مقبول جدوجہد ہے۔ اس نئی مزاحمت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شرکت نے یہ تاثر بھی دھو ڈالا کہ کشمیر کی تحریک بے روزگاری کا نتیجہ ہے۔ عبدالمنان وانی کا دھوم دھڑکے سے مسلح نوجوانوں کا حصہ بننا اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ کشمیر میں عارضہ کوئی اور ہے اور بھارت اس کا علاج اور تشخیص کچھ اور کر رہا ہے۔ بھارت کے پاس اس مرض کا واحد علاج طاقت ہے اور طاقت کی پالیسی مزید کارگر نہیں۔ یہ بات بھارت کے سابق وزیر داخلہ چدم برم نے انڈین ایکسپریس میں لکھے گئے ایک کالم میں بھی تسلیم کی ہے۔
گزشتہ دنوں تحریک آزادی میں شامل فٹ بال کے ایک کھلاڑی نے گھر والوں کی اپیل پر واپسی کی راہ اختیار کی تھی۔ بھارتی میڈیا نے اسے ایک نیا رجحان قرار دیا تھا مگر اس ایک واقعے کے بعد یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ چند روز قبل ایک مقامی فدائی نوجوان فردین کھانڈے نے بھارت کے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا جس سے کشمیر میں مزاحمت کا داخلی رنگ مزید گہرا ہوگیا۔ سال نو کے حوالے سے کشمیر کے مقامی انگریزی اخبار کے ایڈیٹر شجاعت بخاری نے اپنے ایک مضمون میں یہ بات لکھی ہے کہ کشمیر میں بھارتی فوج جس تعداد میں حریت پسند نوجوانوں کو شہید کررہی ہے اس سے زیادہ تعداد میں مقامی نوجوان اس مزاحمت کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس طرح مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھتا چلا جا رہا ہے یہ سب اس حقیقت کا عکاس ہے کہ کشمیر بے روزگاری، دراندازی، وقتی غصے اورکسی القاعدہ وغیرہ سے جڑا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ جس نے کشمیر کی نسلوں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ کشمیر میں ہر دور اور ہر دہائی میں اس نسل کے نام جدا اور جدوجہد کے انداز الگ تو ہو سکتے ہیں اور مختلف ادوار میں جاری رہنے والی مزاحمت میں رفتار اور شدت کی کمی بیشی کا فرق ہوسکتا ہے مگر کشمیری سماج کبھی مزاحمت اور جدوجہد سے خالی ہوا ہو تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مسئلہ کشمیر کی گہری اور وسیع جہات اس بات کی متقاضی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کھلے دل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کا راستہ اختیار کریں۔ کشمیر کا سلگتا ہوا مسئلہ برصغیر کے خرمن امن کو کسی بھی وقت بھسم کر سکتا ہے۔